وہابی طالبانائزیشن سے بریلوی طالبانائزیشن تک


پاکستان کی پچھلی چالیس سالہ تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمارے حکمرانوں، مقتدر حلقوں اور خود ساختہ اہل دانش کی گمراہ کن پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں مختلف نوعیت کی انتہا پسندی کو فروع ملا۔ جب افعانستان میں انقلاب سور کے بعد خطے میں کمیونزم کا خطرہ بڑھ گیا تو سرمایہ دار ممالک بالخصوص امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر کمیونزم کا راستہ روکنے کے لئے ”اسلام خطرے میں ہے“ کا نعرہ لگا کر سویت یونین کے خلاف مجاہدین تیار کی۔ جو بعد میں طالبان کی شکل میں افعانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کے بعد پاکستان میں بھی کئی برسوں تک آگ وخون کا کھیل کھیلتے رہے۔

افعانستان میں سویت یونین کا راستہ روکنے کے لئے موجودہ خیبر پختونخواہ کے نسبتا جاہل اور جذباتی پٹھانوں کو استعمال کیا گیا۔ چونکہ خیبر پختونخواہ کے عوام کی اکثریت دیوبندی مکتب فکر سے متعلق ہے جس کا مدرسہ دیوبند سے براہ راست تعلق نہیں تھا اسی خلا کو وہابیت سے پر کرنے کی کوشش کی گئی اور صوبے میں سعودی فنڈنگ سے مدرسے قائم ہوئے جہاں سے انتہائی سخت گیر اور ناقابل اصلاح وہابی نظریات کا پرچا ر کیا جاتا رہا۔

ان میں سے اکوڑہ خٹک کے مدرسہ حقانیہ تو دیوبندی کم وہابی نقطہ نظر کے فروع اور خطے میں طالبانائزیشن کی فیکٹری کا کردار ادا کرتے رہے۔ اس مدرسے کے فارع التحصیل طلبہ افغانستان جا کر لڑتے رہے اسی لڑائی جھگڑے کے کوکھ سے طالبان کا ظہور ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان پر حکومت قائم کی۔ پاکستان کے شمالی خطوں اور افعانستان میں دیوبندی کم وہابی انتہاپسندی اور دہشتگردی کے فروع میں پاکستانی مقتدر حلقے پیش پیش تھے۔

جنرل حامد گل تو مرتے دم کر اس بات پر بغلیں بجا رہے تھے کہ انہوں نے طالبان کو بنایا۔ انہی طالبان نے موجودہ صدی کے ابتدائی دھائی میں پاکستان کے قبائلی علاقوں پر قبضہ جمانے کے بعد ملاکنڈ ڈویژن کا رخ کیا اور 2007 سے 2010 ء تک یہاں ان کی حکومت قائم رہی جب وہاں آپریشن ہوا تو یہ ناسور پورے صوبے بلکہ ملک تک پھیل گیا۔ تب مقتدر حلقے ہوش میں آئے اور ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کا ناحق خون بہانے کے بعد ان کے خلاف کئی آپریشنز کرنے کے بعد حالات کو کسی حد تک قابو میں کرلیا۔

پاکستان میں ستر فیصد سے زائد آبادی سنی اسلام کے سلسلہ قادریہ سے منسلک ہے لیکن ستر سالہ تاریخ میں اس آبادی کو کسی نے بھی مین اسٹریم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ البتہ سنٹرل رائیٹ کی جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ کی جانب سے انہیں اپنے سیاسی ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ جس کی وجہ سے ان میں احساس محرومی پائی جاتی تھی۔ جب سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کے قاتل ممتاز قاردی کو پھانسی دی گئی تو مولوی خادم حسین رضوی کی قیادت میں قادریہ سلسلے کے ایک انتہا پسند گروپ نے اس مسئلے کو کیش کرنے کی کوشش کی۔

اسی دوران مقتدر حلقوں اور مسلم لیگ ن کی چپقلش جاری تھی ادھر ن لیگ نے کچھ قانونی ترامیم پاس کروائی ادھر اس ترمیم کو توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کا نام دے کر پروپیگنڈہ شروع ہوا اور مولوی خادم حسین رضوری کی قیادت میں اسی انتہا پسند گروپ کو لاہور سے احتجاجی تحریک کی شکل میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم میں واقع فیض آبادلا کر بٹھادیا گیا جس نے دو ہفتوں تک نظام زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس وقت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی بالخصوص شیخ رشید وغیرہ مسلم لیگ ن کے ساتھ اپنی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے ان انتہا پسندوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔

اسی طاقتور گروپ نے اب آسیہ مسیح کیس کو لے کر پورے ملک میں انتشار پھیلا دیا۔ کیس کا فیصلہ سنانے والے تینوں ججز کے خلاف قتل کے فتوے لگائے گئے چیف آف آرمی اسٹاف کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا۔ اور یوں ریاست چند شرپسندوں کے سامنے لیٹ گئی۔ دوسری جانب صحافیوں اور سوشل ایکٹویسٹ کے خلاف بھر پور کریک ڈاون اور زبان بندی کا سلسلہ جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).