جس کی لاٹھی وہی گائے


محاوہ کچھ یوں ہے، ’’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘‘۔ بھینسیں تو بِک گئیں، لاٹھیاں محفوظ کر لی گئیں۔ یہ لاٹھیاں کب کب کام میں لانی ہیں، یہ وہی جانیں جن کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ ماہرین لسان کہتے ہیں، کہ محاورہ تبدیل نہیں ہوتا، ورنہ یہ محاورہ یوں بھی ہو سکتا ہے، ’’جس کی لاٹھی، اُس کی گائے‘‘۔ آپ کہتے ہوں گے، آخر محاورہ تبدیل کرنے کا مطالبہ کیوں ہے۔ آپ سے میرا سوال ہے، جمہوریت پر یقین رکھنے والے سیاست دانوں کی زبان سے کوئی لفظ پھسلے تو توہین عدالت کیوں ہو جاتی ہے، اور لاٹھی لے کے نکلنے والا سو سو دشنام دے، قاضی کو خبر کیوں نہیں ہوتی؟

پاکستان میں ہر کوئی ”لاٹھی“ کی تلاش میں رہتا ہے۔ کوئی مذہبی لاٹھی اٹھائے ہوئے ہے، کوئی لسانی لاٹھی سے ہانک رہا ہے، امارت بھی ایک لاٹھی سا سہارا دیتی ہے، تو ہر کوئی امیر بننا چاہتا ہے، ایسے کو جائز نا جائز طریقے سے غرض نہیں ہے۔ کوئی چاہتا ہے سب لاٹھیوں کو معزول کیا جائے، اور اسے ایک لاٹھی تھما دی جائے؛ اور پھر یہ کہ کسی کے ہاتھ میں اصلی لاٹھی ہے، وہ ان سب کو ہانکتا چلا جاتا ہے۔ محاورہ بدلا جا سکتا تو یہ بھی ہو سکتا تھا، ’’جس کی لاٹھی، وہی گائے‘‘۔ یہ لاٹھی ہے کہ جس سے احتجاجی دھرنوں میں موٹر سائکلوں، کاروں کو پِیٹا جاتا ہے، کہ وہ مرتد ہوئیں۔ یہ لاٹھی ہے، کہ دھرنے کے بیچ میں سے اپنے ہم کار، عالی منصب کو نکال لے جاتی ہے، لیکن یہ لاٹھی دھرنے کے قائدین کو نہیں دکھائی جاتی، کہ شاید یہ انھیں ہنکانے کے لیے ہے؛ ہلا شیری دینے کے لیے ہے۔

ریاست کی عمل داری وہاں دکھائی نہیں دیتی جہاں دکھائی دی جانی چاہیے۔ سچ ہے کہ کوئی ادارہ ایسا نہیں جسے مثالی کہا جا سکے۔ تبدیلی کے حواری ان اداروں کی کارکردگی بہ تر بنانے پر زور کیا دیں، یہاں تو سب کو نگل جانے کے لیے مذہبی عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ اصلاح کے لیے کہاں سے شروع کریں؟ درس گاہوں کی تعداد بڑھانے سے؟ اسکولوں کی حالت زار بہ تر کرنے کا اہتمام کریں؟ لوٹ‌ مار کرنے والے تاجروں پر گرفت مضبوط کریں؟ صحت کے میدان میں کتنا بڑا خلا ہے یہ محسوس کریں؟ روزگار کے مواقع پیدا کریں؟ کہ بہتان تراشنے والوں کو کٹہرے میں لائیں؟ کم زور کی عزت کا تحفظ ریاست کو نہیں تو کس نے کرنا ہے؟ عوام کے لیے انصاف حاصل کرنا سہل کیوں کر ہو؟ اسی طرح کے ڈھیروں کام ہیں جن کی ادائی کے بنا آپ توہمات کو ہرانے چلے ہیں، تو یہ دیوانے کا خواب ہی کہلائے گا۔ بس اک لاٹھی اٹھائیے اور سب ٹھیک کر دیجیے۔

اہل دیر و حرم کو رعایا کی کیا فکر کہ وہ اپنا علاج امریکا، جرمنی، انگلینڈ میں کرواتے ہیں، عوام کو پاکستان سے محبت کا درس دیتے ہیں، اپنے تئیں بیس کروڑ عوام کے ہر دل عزیز رہ نما سڑکیں بند کر کے کسی بادشاہ کی طرح گزر جاتے ہیں۔ انقلاب کا خواب کیا دیکھیں کہ جن کا منشور مذہب کے ماننے والوں کی تضحیک کرنا رہا ہو۔ ان انقلابیوں سے مایوس ہوئے بھی زمانہ بیت گیا۔ کل عالم کو سوشلسٹ بنانے کا خواب دیکھنے والوں میں سے بیش تر جا کے قوم پرستی کی گود میں منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔ باقی رہ جانے والوں نے این جو او کی گود میں پناہ ڈھونڈ لی۔ انقلاب کی راہ تکنے والوں نے آنکھیں موند لیں، یا کہے دیجیے کہ امروز کے انقلابی نوجوان نے پیر و ملا سے اُمید باندھ لی ہے۔

پیر قادری ہوں یا ملا خادم، یہ پتلیاں ہیں اور کچھ نہیں۔ ناچنے والی پتلیوں کی ڈور پردے کے پیچھے تلک جاتے دکھائی دیتی ہے، وہاں کس کے ہاتھ ہیں، کس کی انگلیاں کہ تار چھِڑے جاتے ہیں کہ یہ رقص نہیں تھمتا۔ سیکولر جن کا اصرار ہے کہ ریاست سے مذہب کا اجارہ ختم ہونا چاہیے، انھیں نوید ہو کہ ایسا ممکن نہ ہو گا۔ ایسا نہیں کہ یہ دعوا کشف کے زور پر کیا جا رہا ہے، معروضی حالات یہی بتاتے ہیں کہ یہاں داستانیں سننے والے ہیں اور سنانے والے؛ یہاں داستانیں بکتی ہیں۔ قصہ گو ہر گلی ہر محلے میں دو اینٹ کی چوکی بنائے ہوئے ہیں۔ ماہرین لسان کہیں گے، درست محاورہ ’’دو اینٹ کی مسجد‘‘ ہے، لیکن ماہرین لسان سے پوچھا جانا چاہیے، کیا ان حالات میں ہم مسجد و مندر کا نام بھی لے سکتے ہیں؟

شعور سے کوسوں دُور اس معاشرے کو توہمات کے سہارے چلا جا رہا ہے۔ بساط بچھانے والے ان مہروں کے ٹیڑھ سے خوب واقف ہیں۔ اڑھائی گھر کسے چلانا ہے، اور کس کے لیے آئین قوانین کے خانوں کی قید نہیں، وہ چاہے تو عدلیہ کی توہین کرے، بغاوت پر اکسائے، حکومت کو دھمکیاں دے، اسے سب معاف ہے۔

’’جس کی گائے اس کی لاٹھی‘‘، یا ’’جس کی لاٹھی، اُس کی گائے‘‘؛ یا ’’جس کی لاٹھی، وہی گائے‘‘، آپ کچھ بھی کر لیں، لیکن یہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ وہ معنی نہیں دیتا، جو مطلوب ہے؛ پھر آپ پوچھتے ہیں، میں محاورہ کیوں بدلنا چاہتا ہوں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran