ریاست کو جان کی بازی لگانی پڑے گی


حالیہ دنوں پاکستان تاریخ کے ایسے شرمناک دور سے گزرا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اگرچہ دھرنے اور احتجاج پہلے بھی ہوتے رہے ہیں بلکہ ماضی قریب ان دھرنوں کا عینی شاہد رہا ہے لیکن گھیراؤ جلاؤ لوٹ مار اور قتل وغارت پہلی بار ان دھرنوں کا حصہ بنی ہے۔ ہر بار دھرنوں کی شدت میں اضافہ اور حکومتی علمداری می کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس دھرنے میں کچھ ایسے شرمناک واقعات بھی وقوع پذیر ہوئے ہیں جن کا بیان ہی حوصلہ شکن ہو سکتا ہے۔

آسیہ کا کیس پاکستان کے تفتیشی اداروں اور نظام عدل پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ کیس پہلے سلمان تاثیر کی جان لے چکا ہے ممتاز قادری کو پھانسی لٹکا چکا اور دنیا میں پاکستان کو بے عزت اور شرمندہ کروا چکا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے نظام عدل کو کٹہرے میں لانے کا جواز مہیا کرتا نظر آتا ہے۔ حالانکہ اسلام اور اور اللہ کے پاک رسولؐ کی تعلیمات اور اسلامی حکومت میں رہائشی اقلیتوں کے حقوق اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایسے قوانین میں جیسا کہ توہین رسالت کاقانون ہے، تفتیش اتنی شفاف ہو اور عدالتیں توہین کے مرتکب افراد کو صفائی کا موقع اس طرح دیں کہ شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔

آسیہ کے کیس میں تفتیش، لوئر کورٹ کا فیصلہ اور ہائکورٹ کا سزا کو برقرار رکھنا۔ اس شک کو تقویت دیتا ہے کہ کہیں نہ کہیں سارے معاملے میں کوئی جھول کوئی سقم رہ گیا ہے جو ملک کی اعلی ترین عدالت نے اسے رد کردیا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پورا پاکستان کئی دن فسادیوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا۔ ملکی قیادت حکومت کے ہاتھ سے نکل گئی اور عملی طور پر ایسے شخاص اور گروہ کے ہاتھ آگئی جس نے ملک کی اعلی عدالت کے ججوں کے قتل کا حکم صادر فرما دیا۔

مزید براں فوج کو بغاوت کا حکم جاری کر دیا۔ حکومتی اندھوں کو یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ اسی طرح کی جذباتی موٹیویشن کے تحت ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا۔ معاملات کا حل یہ نکالا گیا کہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لی گئی جو مرض کا سبب بنا تھا۔ اربوں روپے کے نقصان کی تلافی واحد معافی سے کر لی گئی۔ ایک آسیہ کو سزائے موت کے مطالبے کے نتیجے میں مرنے والے چار بے گناہ مسلمانوں کی موت کا نہ کسی کو دکھ ہے نہ پرواہ۔

بلکہ ان ڈنڈا بردار کارکنان کو رہا بھی کردیا گیا۔ ایسا ہی معاہدہ گذشتہ سال بھی کیا گیا تھا۔ تب تو انہیں قوم کو بائس دن ذلیل کرنے کا معاوضہ بھی دیا گیا تھا۔ اسی وقت ان کی طبیعت صاف کی گئی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک کے قائدین ان فسادیوں کو پہچان ہی نہیں رہے۔ حکومت ایک طرف فسادیوں کو گرفتار کررہی ہے تو دوسری طرف برملا اعلان کر رہی ہے کہ عدلیہ اور فوج کے خلاف عوام کو اکسانے والے بڑے نیک اور محب وطن لوگ ہیں اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گیں گے۔ یاد رکھیں آج ریاست کے خلاف بات کرنے والوں کو محب وطن قرار دے دیا گیا تو کل اور گروہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو کر انہیں اور مضبوط کریں گے۔

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے چین روانہ ہونے سے پہلے قوم کو حوصلہ دیا اور ان کے لہجے کا یقین عوام کو مطمئن کرنے کے کے کافی تھا۔ آپ نے فرمایا ریاست کی رٹ کو قائم رکھا جائے گا۔ آپ نے خبردار کیا کہ ججوں کے قتل اور فوج کو بغاوت پر اکسانے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ مزید یہ کہا کہ ریاست سے کوی نہ ٹکرائے۔ بعد میں ان کے وزرا بھی ان کے اس عزم کو دہراتے پائے گئے۔ ایک وزیر نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ہم تو بندے اٹھوا دیں گے، پتہ ہی نہیں چلنا گئے کدھر ہیں۔

فسادیوں نے ان باتوں پر دھیان دیے بغیر پورے ملک خاص طور لاہور کو بلاک کیے رکھا۔ میری ڈاکٹر بیٹی جو اپنے ہسپتال ڈیوٹی پر جا رہی تھی، کینال روڈ پر ڈنڈا بردار لوگوں نے روک لیا اور آگے جانے سے منع کیا۔ ڈراؤر نے باہر نکل کر منت سماجت کی اور بتایا کہ خاتون ڈاکٹر ہیں اور ڈیوٹی پر جارہی ہیں لیکن وہ بضد رہے اور بدتمیزی پر اتر آئے۔ قریب تھا کہ وہ گاڑی کے شیشے توڑ دیتے۔ بیٹی نے باہر نکل کر ان کو سمجھایا کہ میں ایمرجنسی ڈیوٹی کرنے جارہی ہوں میرا کوئی مسئلہ نہیں واپس چلی جاوں گی لیکن ہو سکتا ہے اس وقت ہسپتال میں آپ کا کوئی رشتے دار موت و حیات کی کشمکش میں ہو تو میں اس کی کچھ مدد کر سکوں۔

وہ پھر بھی نہیں مانے مگر انہی میں سے ایک شخص کہ اللہ نے اسے ایمان کی طاقت دی تھی ان کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوا اور للکارا کہ ہمت ہے تو آؤ مجھ سے لڑو یہ ڈاکٹر ڈیوٹی پر جائے گی۔ اس کی للکار اور جان کی بازی پر آمادہ توانا جسم کام آیا اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔ وزیر اعظم صاحب صرف للکار کافی نہیں ریاست کو جان کی بازی لگانی پڑے گی۔ جس طرح سوات، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ریاست لگا چکی ہے اور مسلسل لگا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).