پنجاب تقسیم نہیں ہو گا؟


وزیربرائے آبپاشی محسن لغاری کے ساتھ بات چیت کے دوران ان کے اس جملہ نے چونکا دیا کہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کو ہر سال پاکستان میڈیکل اینڈ ڈئینٹل کونسل کو 70 لاکھ روپے جرمانہ اس لیے ادا کرنا پڑا رہا ہے کہ فیکلٹی مکمل نہیں ہے (نشتر یونیورسٹی انتظامیہ اس بارے میں اپنی وضاحت جاری کرسکتی ہے، اگر ان کو وزیرموصوف کی معلومات سے اتفاق نہیں ہے )۔ یوں ان کے خیال میں تھل کے اضلا ع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ میں میڈیکل کالج بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ نشتر یونیورسٹی میں فیکلٹی ایشو ہے۔

وزیرموصوف کے ساتھ بحث اس بات پر ہورہی تھی کہ ڈیرہ غازی خان میں غازی میڈیکل کالج، ملتان میں نشتر میڈیکل کالج، بہاولپور میں قائد اعظم میڈیکل کالج، رحیم یار خان میں شیخ زید میڈیکل کالج اور بہاولنگر میں بہاولنگر میڈیکل کالج قائم کیے گئے ہیں لیکن تھل میں ابھی تک ایک بھی میڈیکل کالج، ڈینٹل کالج حکومت کی طرف سے نہیں بنایا گیا ہے اور نہ ہی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے مستقبل قریب میں کوئی ایسا منصوبہ ہے۔

محسن لغاری صاحب کے چہر ے کے تاثرات سے یوں لگ رہاتھا کہ موصوف کو تھل کے نام سے چڑ ہے، جونہی تھل کا ذکر ہوتا، وہ بات بدل لیتے تھے۔ راقم الحروف کے تیسری بار اپنا سوال دھرانے پر وزیرآبپاشی محسن لغاری نے طنزیہ انداز میں راقم الحروف سے پوچھاکہ آپ کو پتہ ہے کہ ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلہ جو کہ بھکر سے رکن قومی اسملبی ہیں اور دوسری بار منتخب ہوئے ہیں، ان کا میڈیکل کالج کس شہر میں ہے؟ تو میں نے عرض کیا جی بالکل ڈھانڈلہ صاحب نے بھی اپنا پرائیوٹ میڈیکل کالج تھل میں بنانے کی بجائے ملتان میں بنایا ہے۔

میرے جواب پر محسن لغاری صاحب نے طنزیہ مسکراتے ہوئے پوچھاکہ پھر؟ میں عرض کیا کہ حضور پنجاب حکومت بالخصوص عثمان بزدار کیا ڈاکٹر ڈھانڈلہ کی پالیسی کے پیچھے چل رہے ہیں کہ اگر انہوں نے تھل میں اپنا میڈیکل کالج نہیں بنایا ہے تو پنجاب حکومت بھی نہیں بنائے گی۔ اس بحث میں راقم الحروف کا عرض کرنا تھا کہ پنجاب حکومت جو کہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی سربراہی میں چل رہی ہے یوں لگتا ہے کہ شہبازشریف کی طرح تھل کے ساتھ ضد رکھ لی، تھل کے اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ کے لئے کوئی ایک میگا منصوبہ بھی نہیں دیا ہے۔

پنجاب حکومت کی طرف سے ابھی ہسپتالوں کے لئے جو فنڈز ریلز کیے گئے ہیں، ہمارے جیسے لوگوں کو توقع تھی کہ تھل میں بھی ملتان اور لاہور طرز کا ایک جدید سہولتوں سے آراستہ کارڈیالوجی ہسپتال، ایک میڈیکل کالج، ایک ڈئینٹل کالج اور اس کے ساتھ نشتر ہسپتال طرز کے ٹیچنگ ہپستال کا اعلان وزیراعلی کی طرف سے کیجائے گا لیکن انہوں نے فنڈز کا رخ ڈیرہ غازی خان ہسپتال، ملتان کے نشتر ہسپتال اور وکٹوریہ ہسپتال اور بہاولنگر میڈیکل کالج کی تکمیل کی طرف کرکے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

تھل کے عوام کو اس بات پر ہرگز اعتراض نہیں کہ وہ ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور، بہاولنگر کے ہسپتالوں کو فنڈز میں اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟ لیکن اتنا تو عرض کیجا سکتا ہے کہ آخر وہ تھل کے فنڈز کی باری پر خاموشی سے آگے کیوں بڑھ جاتے ہیں؟ ہماری بات ہورہی تھی وزیرآبپاشی پنجاب محسن لغاری کے ساتھ پنجاب کی تقسیم کے معاملے پر تو موصوف سے جب جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے بارے میں پوچھ تو موصوف کی گفتگو سے اس کا وجود میں آنا اس لیے ناممکن لگ رہاتھا کہ پنجاب کے پانی کی تقسیم مشکل ہے؟ مطلب اب وزرات آبپاشی ملنے کے بعد معاملہ الٹ گیا ہے، لغاری صاحب جن کو جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالہ سے قرارداد جمع کروانے کی جلدی تھی اب بحیثت وزیر ان کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جنوبی پنجاب کے لئے پانی وسطی پنجاب سے کس طرح وصول کیا جائے گا؟ وہ راقم الحروف کے ساتھ زبیر نیازی کو بھی سمجھارہے تھے کہ حقیقت پسندی سے کام لیں، پنجاب کی تقسیم کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے بلکہ انتہائی پیچیدہ ہے۔

میں نے عرض کیا کہ لغاری صاحب آپ کو پنجاب کی تقسیم اتنی پیچیدہ کیوں لگ رہی ہے؟ ایساتو دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ آبادی بڑھنے پر نئے صوبے بنتے ہیں، یہاں پر پنجاب اسمبلی کی اپنی متفقہ قرارداد موجود ہے جوکہ اس کی وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں نے منظورکی تھی کہ پنجاب کو فی الفور تقسیم کرکے جنوبی پنجاب کے قیام اور بہاولپور صوبہ کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔ پھر یہ آپ کو اتنا پیچیدہ معاملہ کیوں لگ رہا ہے؟ ۔

اسی طرح ہمارے پڑوسیوں نے بھی پنجاب سمیت اپنے دیگر صوبوں کو عوام کے مطالبہ اور آبادی بڑھنے پر تقسیم کرکے نئے صوبے قائم کیے ہیں اور یقینا آپ کو مجھ سے زیادہ پتہ ہو گا کہ انہوں نے بھی پانی جیسے اہم ایشو کو حل کیا ہے۔ آپ آخر اتنے خوفزدہ کیوں ہیں کہ پنجاب کا پانی دوحصوں میں تقسیم نہیں ہو سکتا ہے؟ وزیر آبپاشی محسن لغاری کے لئے یہ سوال تھوڑا مشکل ضرور تھا لیکن وہ اس حوالے سے ذہن بنا چکے ہیں کہ جو بھی جنوبی پنجاب صوبہ کی بات کرے اسے وہیں ڈھیر کرنے کے لئے کونسی گولی استعمال کرنی ہے۔

انہوں نے پھر وہی اپنی پرانی رٹی رٹائی دلیل دہرائی کہ معاملہ پیچیدہ ہے، آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس صورتحال میں راقم الحروف نے محسن لغاری کو یہ بھی تجویز دی کہ آگر آپ جیسے لوگ جوکہ اس وقت کابینہ میں شامل ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ پنجاب دنیا کا واحد صوبہ ایسا ہے جوکہ تقسیم کے عمل سے نہیں گزر سکتا ہے تو پھر یہ مناسب نہیں ہوگا کہ اسی متحدہ پنجاب میں اس شرط پر رہ لیاجائے کہ پہلے پنجاب کے ان اضلاع اور علاقوں کو لاہور، ملتان، ڈیر ہ غازی خان، بہاولپور، فیصل آباد اور راولپنڈی کے برابرلانے کے لئے فنڈز جاری کیے جائیں جوکہ آج تک نظرانداز ہوتے رہے ہیں۔

مثال کے طورپر تھل کے اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ میں ایک بھی ائر پورٹ، ایک میڈیکل کالج، ایک ڈینٹل کالج، ایک وویمن یونیورسٹی، ایک ایگری کلچرل یونیورسٹی، ایک انجئرنگ یونیورسٹی، ایک ٹیکنالوجی کالج، ایک ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر، ایک ہائی کورٹ کا بنچ، ایک مکمل موٹروے تو دور کی بات ہے ایک موٹروے لنک بھی پورے تھل میں سے نہیں گزرتا ہے۔ تھل کے عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، راقم الحروف کی اس بات پر محسن لغاری کا کہنا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے، مطلب اس بار بھی سارا سیاسی ڈرامہ حکومت سے لے کر وزراتوں تک ہی تھا۔

وزیرآبپاشی محسن لغاری کے بعد ایک رکن قومی اسمبلی کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کے چمبر میں تنویرملک کے آفس میں ہوئی تو ان کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے میرٹ سے شروع ہوئی اور اسی پر ختم ہوئی تو راقم الحروف نے پوچھا کہ حضور تحریک انصاف حکومت نے کموکامل لیہ پھاٹک کے پاس اور گلبرگ ہوٹل کے ساتھ جڑے جی ٹی ایس کے پلاٹ جوکہ اربوں کی مالیت کا تھا اس پر اچانک وجود میں آنیوالے پلازہ کے بارے میں کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا ہے؟ تو موصوف فورا ٹھنڈے ہوگئے اور کہا کہ اس پلاٹ پر وردات تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے ڈالی گئی تھی، مطلب کل کے ڈاکو کے خلاف آج کی حکومت ایکشن نہیں لے سکتی ہے لیکن یہ صرف لیہ میں ہو رہا ہے۔ لیہ میں انجئیرنگ یونیورسٹی کے بارے میں ان کی دلیل ایسی تھی کہ نہ لکھوں تو بہتر ہے، ایسے ہی لیہ کے عوام کا دل جلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).