دنیا کی طاقتور ریاست پاکستان کا احوال



پاکستانی دبنگ خان عمران خان دنیا کی طاقتور ترین ریاست پاکستان میں تشریف لاچکے ہیں۔سنا ہے عمران خان صاحب دنیا کی اس طاقتورترین ریاست کے طاقت ور وزیر اعظم ہیں۔یہ بھی ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی گزشتہ روز ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں دنیا کے طاقتورترین ملک کے وزیر اعظم عمران خان کو سیکیورٹی معاملات پر بریفنگ دی گئی۔ اس نیشنل سیکیورٹی کونسل کی اندر کی کہانی کچھ نامعلوم زرائع یہ بتاتے ہیں کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک کی سلامتی اور سیکیورٹی صورتحال پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا جائے گا۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ سول اور ملٹری قائدین نے کبھی ملک کی سیکیورٹی صورتحال پر کمپرومائز نہیں کیا۔ کچھ لوگوں نے انہیں گالیاں دیں۔ کافر اور غدار کہا ،یہاں تک کہ قتل و غارت کی بات کی۔ لیکن ہماری ریاست کے طاقتورترین افراد نے کبھی سیکیورٹی معاملات پر کمپرومائز نہیں کیا۔
نیشنل سیکیورٹی اجلاس کے بعد آج دبنگ خان نے حکومت پنجاب سے کہا ہے کہ ٹی ایل پی کے پرامن مظاہرین نے عوام کا جو مالی نقصان کیا ہے ،اس کے لئے مالیاتی پیکج تیار کیا جائے۔ کیا یہ بڑا فیصلہ نہیں ہے کہ عوام کا جو نقصان ہوا ہے اس کے لئے مالیاتی پیکج تیار ہورہا ہے۔ جن کا نقصان ہوا ہے اب انہیں پیسے ویسے دیئے جائیں گے اور اس طرح ریاست اور حکومت کی رٹ کا بول بالا ہوگا۔ پاکستان دنیا کی وہ واحد مثالی ریاست ہے جہاں کچھ پرامن عناصر کئی دنوں تک جلاو گھراو کرتے ہیں۔ گاڑیاں جلا ڈالتے ہیں۔ املاک کو تباہ کردیتے ہیں۔ لیکن ریاست ان سے صلح کر لیتی ہے اور اپنے پرامن عناصر کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کرتی۔ اسے کہتے ہیں ریاست ،ایسی ریاست جو ماں جیسی ہو اور ہر کسی سے محبت اور امن سے پیش آئے۔ پاکستان کو بطور ریاست دنیا کی پرامن ریاست کہا جاسکتا ہے جو لیٹ جاتی ہے ،لیکن اپنوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی۔
سنا ہے وہ پرامن عناصر جو تین دن تک شغل شغل میں توڑ پھوڑ کرتے رہے ہیں اور ان میں سے کچھ کو حکومت نے شغل شغل میں گرفتار کر لیا تھا ،اب انہیں رہا کیا جا رہا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان پیر زبیر احمد نے اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر بڑا ہی خوبصورت اور لاجواب ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ حکومت نے اگر ہمارے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو بہت جلد دوبارہ ہم سڑکوں پر ہوں گے۔ پیر صاحب کا یہ بیان بہت کارگر ثابت ہوا ہے اور دبنگ خان کی حکومت نے فوری طور پر تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کی گرفتاری کا سلسلہ بند کردیا ہے۔ یہ ہوتی ہے ریاست جو پیروں فقیروں کے احکامات پر فوری عمل کرتی ہے۔ حکومت نے نہ صرف پرامن شرپسند عناصر کی گرفتاریاں روک دی ہیں بلکہ جنہوں نے گاڑیاں ،رکشے ،موٹر سائیکل ،کاریں اور ٹرک وغیرہ جلائے تھے اور املاک کونقصان پہنچایا تھا ان کو رہا کرنا شروع کردیا ہے۔
اسے کہتے ہیں تابعدار ریاست جو پیروں کے احکامات کو فوری تسلیم کرکے سرنگوں ہوجاتی ہے۔پیر زبیر صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم نے تو حکومت اور ریاست کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ شرپسند عناصر کو گرفتار کرسکتے ہیں لیکن حکومت نے ہمارے ہی کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ یہ چیز کسی صورت برداشت نہیں ہوگی۔ اب سنا ہے پیر صاحب کے احکامات کے بعد تمام شرپسند اور پرامن شر پسند عناصر کو رہا کیا جارہا ہے اور آج تک سب کو رہا کردیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ تین دن کے دھڑنوں اور جلاو گھراو کے دوران تحریک لبیک پاکستان کے مثالی مسلمانوں نے کچھ محبت بھری اشتعال انگیز تقریریں فرمائی تھی جس میں وزیر اعظم کو یہودی بچہ کہا گیا۔ عدلیہ کے ججوں کو قتل کرنے کے فتوے جاری کئے گئے اور فوج کو اپنے ہی آرمی چیف کے خلاف بٖغاوت پر اکسیایا گیا تھا۔ اس کا کیا ہوگا ؟کیا ریاست نے ان باتوں کو بھی بھلادیا۔ ان باتوں پر بھی مٹی ڈال دی گئی۔ جناب پریشان مت ہوں۔ اس سوال کا جواب بھی وزیر مملکت برائے داخلہ نے دے دیا ہے۔ وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے شہریارخان آفریدی نے فرمایا ہے کہ کیا دوسرے ممالک میں اس طرح کی نفرت انگیز تقاریر نہیں ہوتی ؟جب احتجاج شروع ہوا ،طاقت استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کیا بلوچستان میں جن لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے ان کو معاف نہیں کیا گیا ؟شہریار خان آفریدی صاحب کی اس دلیل سے تو لگتا ہے کہ تحریک لبیک نے ریاست کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ آفریدی صاحب نے انٹرویو میں فرمایا کہ تحریک لبیک سے جومعاہدہ ہوا اس میں انہوں نے معذرت کی ہے۔
شہر یار آفریدی کی اس دلیل کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ججوں کو قتل کرنے کے جو فتوے جاری ہوئے اور فوج کو بغاوت کرنے پر اکسانے کا جو معاملہ ہے وہ چیپٹر بھی بند ہو گیا۔ جی جناب بیچاروں نے معاہدے میں معذرت جو کر لی ہے۔ مظاہرے ہوئے ،جلاو گھراو ہوا ،معاہدہ ہوا ،اب عوام کے لئے بھی مالیاتی پیکج تیار ہوریا ہے۔ بیچاری ریاست اور کیا کرے۔
ایک پنجاب پولیس آفیسر نے ٹوئیٹر پر لکھا ہے کہ انہیں بہت بڑی اتھارٹی سے احکامات موصول ہوئے تھے کہ ٹی ایل پی کے تمام گرفتار کارکنوں کو رہا کردیا جائے۔ وہ تمام لوگ جو تین دن فساد میں ملوث رہے ہیں۔ انہیں بھی رہا کیا جائے۔ اس لئے انہوں نے تمام کو رہا کردیا ہے۔ ماں جیسی عظیم ریاست عظیم اور تاریخی اقدامات اٹھا رہی ہے لیکن سیکولر ،لبرل ،سولسوسائیٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد حکومت اور تحریک لبیک پاکستان سے ناراض ہیں۔

ہمارے ملک میں ایک فرد ہے جس کانام جبران ناصر ہے ،سنا ہے وہ سر پھرا انسان ناراض ہے۔ گزشتہ روز ایک پریس کانفرس کے دوران نوجوان انقلابی جبران ناصر نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے تحریک لبیک والوں کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کیا ،انکے خلاف مربوط ایکشن نہ لیا گیا تو وہ حکومت اور ریاست کو عدالتوں میں گھسیٹیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انصاف ،امن اور زندگی کی بھیک مانگنے عدالت میں جائیں گے اور تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم کروائیں گے۔ نوجوان انقلابی جبران ناصر نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت خادم رضوی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے درج کرے ایسا نہ کیا گیا تو وہ حکومت کو عدالتوں میں گھسیٹیں گے۔ ان کے مطابق یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تحریک لبیک کی قیادت کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ جبران ناصر کے مطابق جو قانون کے مطابق احتجاج کرتا ہے اس کے خلاف غیر آئینی اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن جو ریاست کو چیلنج کرے۔ ریاست کے خلاف بغاوت کرے فوری طور پر اس سے معاہدہ کر لیاجاتا ہے۔ اب بیچارے جبران ناصر کو کون سمجھائے کہ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے جو اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو بھی معاف کردیتی ہے۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے سو موٹو نوٹس تو لے لیا ہے ،دیکھتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس بغیر خوف اور ڈر کے انصاف پر مبنی فیصلہ دے سکیں گے ؟ ویسے اس ملک میں ان نوٹسز کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ عمران خان نے بھی تو نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ شرپسندوں کے خلاف سخت ایکشن ہوگا۔ یہ بھی انہوں نے فرمایا تھا کہ جو ریاست سے ٹکرائے گا پاش پاش ہوجائے گا۔ لیکن حقیقت میں پاش پاش کون ہوا ہے ،یہ تو ہم سب کے سامنے ہے ؟
عمران خان کی حکومت کے رویوں سے لگتا ہے کہ وہ پانچ سال تک یوٹرنز پر مبنی کھیل ہی کھیلیں گے۔ اب چیف جسٹس جنہوں نے ہمیشہ بہادری کا مظاہرہ کیا ہے ،وہ کیا کرتے ہیں ،یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ جبران ناصر پیچھے ہٹنے والا نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).