مٹی پائو،آگے بڑھو اور اپنا حساب دو!


وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کے بعد چین کا بھی کامیاب دورہ کرچکے ہیں۔ سعودی عرب میں چونکہ زیادہ آزادی نہیں اس لئے ان کو وہاں بیان کر نے کا موقع نہیں ملا کہ پاکستان کی معیشت کے لئے ناسور کون ہیں۔ سعودی عرب میں گریبان چاک کرنے کا موقع میسر نہیں آیا ورنہ وہ اپنا دل نکال کران کے سامنے رکھ دیتے کہ ان کے چہیتے میاں نوازشریف اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کی معیشت کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں کی ہیں، جس کی وجہ سے ابھی تک معیشت وینٹی لیٹر پر پڑی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان کو تنہائی میں یہ سب شکوے کر چکے ہوں، لیکن کھلم کھلا میڈیا میں وہ پاکستان کے سیاست دانوں کے کارناموں سے سعودی عرب کی پوری قوم کو آگاہ نہ کر سکے ۔ جس سے بڑی حد تک میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کی عزت بچ گئی ہے۔ دونوں کو اس پر وزیر اعظم عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔

دورہ سعودہ عرب کے بعد وزیراعظم عمران خان چین کا کامیاب دورہ کر چکے ہیں۔ اس دورے کے بارے میں بتایا یہ گیا تھا کہ اس کا مقصد کرپشن روکنے کا گر سیکھنا ہے۔ اینٹی کرپشن کا ہنر سیکھنے کے لئے وہ چند وفاقی وزراء اور سرکاری حکام کو بھی ساتھ لے کر گئے تھے۔ ممکن ہے وہ کامیاب دورے کے ساتھ ساتھ اینٹی کرپشن کا کورس بھی کر کے آئے ہوں۔ وزیراعظم عمران خان چونکہ خود اس شعبے کے ماہر ہیں۔ وہ برطا نوی اور امریکی ماڈل کو پہلے سے جانتے ہیں، اب چینی ماڈل کے ماہر بھی بن گئے ہیں۔ امید ہے کہ اب بینکوں میں پڑے ناجائز اثاثے قومی خزانے میں منتقل ہو جائیں گے۔ ہونا بھی چاہئے، کہ وزیر اعظم خود اینٹی کر پشن کا ماہر ہے ۔ تین ملکوں سے تر بیت یا فتہ۔ اب ان کے وفاقی وزراء بھی چین سے یہی کورس مکمل کرکے آئے ہیں، اس لئے اب چوری کا مال چوروں کے اکاونٹس میں نہیں بلکہ قومی خزانے میں ہونا چاہئے۔ وفاقی وزراء کے اس کامیاب کورس کے بعد اب وزیراعظم عمران خان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسدعمر، خسرو بختیار، رزاق دائود اور دیگر سے فوری نتائج کا مطالبہ کریں ورنہ چند مہینے بعد ان کو فارغ کردیں۔

دورہ چین کے بعد وزیراعظم عمران خان کو احتساب کے عمل کو تیز کرنا ہو گا۔ اس لئے کہ وہاں سنٹرل پارٹی سکول کی تقریب سے خطاب کر تے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کو نقصان پہنچانے کی ذمہ دار کرپشن ہے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وہ کرپشن پر قوم سے لاتعداد مرتبہ خطاب کر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک وہ کرپشن کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون شروع نہیں کر سکے۔ حالانکہ پورے ملک میں وہ تجاوزات کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس چیز کا انھوں نے کبھی تذکرہ نہیں کیا، اس کے خلاف آپریشن جاری ہے، جبکہ کرپشن ان کی ہر تقریر کا مر کزی نقطہ، اس کے بارے میں خامو شی، مزید خاموشیوں کو جنم دے رہی ہے۔ بہر کیف چین میں چونکہ وہ کرپشن کو کوستے رہے ہیں، اس لئے اب ضروری ہے کہ کرپشن سے بنا ئے گئے اثاثوں کو گرا کر قومی خزانے کی تعمیر کا کام شروع کر دیں۔

چین سے وزیراعظم عمران خان کے ریفریشر کورس اور وفاقی وزراء کی ابتدائی تر بیت ہی کا اثر ہے کہ سابق صدرآصف علی زرداری نے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ وہ پانچ سال ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ لیکن آصف علی زرداری نے یہ نہیں بتایا کہ وہ صرف حکومت کے ساتھ چلیں گے یا کشکول میں کچھ ڈالیں گے بھی۔ اگر یہ مفاہمت صرف چلنے تک محدود ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ ایک زرداری سب پہ بھاری، اگر ساتھ چلنے کے علاوہ آصف علی زرداری کچھ دے بھی دیتے ہیں، تو پھر نعرہ لگنا چاہئے کہ تبدیلی آئی نہیں، تبدیلی آگئی ہے۔

اسی اینٹی کرپشن تربیت کے خوف سے آصف علی زرداری کے صاحبزادے بلاول زرداری نے بھی قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کو یقین دلا یا ہے کہ ”قدم بڑھائو ہم تمھارے ساتھ ہیں”۔ اب یہ نہیں معلوم کہ بلاول زرداری کا قدم بڑھانے سے مراد کیا ہے۔ وہی چوہدری شجاعت حسین والا گز شتہ پر ”مٹی پائو ”کا قدم ہے یا قومی دولت لوٹنے والوں کے محاسبے کی طرف لپکنے کا۔ لیکن اس قدم بڑھا ئو پالیسی پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ اس لئے کہ اس طرح کے قدم بڑھانے کی سمت کا چند دن بعد خود بخود معلوم ہوتا ہے کہ یہ قدم کس جانب رواں دواں ہیں۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ پانچ سال اینٹی کر پشن کے قدم پیپلز پارٹی کے محلات کی طر ف نہیں جائیں گے، اس لئے کہ ساتھ چلنا بھی ہے اور یہی قدم کسی اور طرف بڑھانے بھی ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت جاری منصوبوں پر اعتراض کیا تھا۔ شنید ہے کہ دورہ چین کے دوران اس مسئلے کو حل کیا گیا ہے۔ چین نے چونکہ فوری طور پر پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کسی قرضے یا عطیے کا اعلان نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے خدشات ہیں کہ بیجنگ نقد کچھ دینے سے گریز کر رہا ہے۔ لیکن وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے واپسی پر قوم کو خوش خبری سنائی ہے کہ ادائیگیوں کا معاملہ حل ہو گیاہے۔ بارہ ارب ڈالر کی ضرورت تھی۔ چھ ارب ڈالر سعودی عرب دے گا۔ باقی کا انتظام چین نے کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ بیلنس آف پے منٹ کے حوالے سے پاکستان کا مسئلہ حل ہو گیا ہے اور اب ہم بحران سے نکل چکے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے اس بیان سے واضح ہو گیا ہے کہ اب خود کمانا ہوگا۔ سعودی عرب اور چین سے جو قرضہ یا عطیات لئے ہیں، اب ان کو واپس کرنے کے لئے محنت کرنی ہوگی۔ ان دونوں ممالک کے علاوہ دیگر اداروں کو بھی ادائیگیاں اگلے سال کرنی ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اب وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء دوسروں کا حساب کتاب رکھنے کا سلسلہ بند کر دیں، اس لئے کہ اب انھوں نے خود اپنا حساب دینا ہے۔ پانچ سالوں میں سالانہ ادائیگیاں بھی کرنی ہیں اور ملکی معیشت کو استحکام بھی دینا ہے۔ ان پانچ سالوں میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ عوام پر مزید بو جھ نہ پڑے، اس لئے کہ ابتدائی تین مہینوں میں عوام پر استطاعت سے زیادہ بو جھ ڈالا گیا ہے۔ اگر معاشی استحکام کے لئے عوام کو مزید قربانی کا بکرا بنا یا گیا تو پھر پانچ سال بعد ہو نے والے انتخابات میں عمران خان کو قربانی دینے کے لئے تیار ہونا ہوگا۔

میرے خیال میں وزیر اعظم عمران خان پانچ سال تک احتساب کی دکان کا شٹر بند ہی رکھیں گے۔ وہ قوم کا لہو گر مانے کے لئے تقریروں میں احتساب کا تڑکا لگائیں گے ضرور لیکن عملی طور پر اس سے گریز ہی کریں گے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ خیبر پختون خوا میں بھی گزشتہ پانچ سالوں میں وہ پرویز خٹک کی سربراہی میں یہی کچھ کر تے رہے ہیں، جبکہ اس وقت بھی پرویز خٹک ان کی کابینہ کا ایک اہم وزیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).