بنکاک کی فلائٹ اور آرٹسٹ لوگوں کا پیمانہ



تھائی ایر لائنز کے جہاز نے لاہور سے اڑان بھری ۔ یہ جہاز بنکاک جارہا تھا اور پوری طرح بھرا تھا۔ زیادہ مسافر پاکستانی تھے، کچھ ہی غیر ملکی ہونگے۔ یورپ اور دوسری دور کی منازل کے لیے تھائی ایر لائنز کی پروازیں بنکاک کے راستے سے جاتی ہیں سو اس مسافر کی طرح کئی اور مسافروں نے بنکاک سے آگے کی پروازیں لینا تھیں، جبکہ کئی لوگ بنکاک بھی جارہے تھے؛ کپڑے کے تاجر، سیاح، جنس کے بیوپاری۔ بنکاک کی کئی وجوہات ِشہرت ہیں، جن میں شاید شہوت سب سے سرِ فہرست ہے۔ اسی پر مسافر کو ایک اور پرواز یاد آگئی جو اُس نے ایک دفعہ دسمبر کے آخری ہفتے میں آسڑیلیا سے بنکاک کی لی تھی۔ جہاز پورا بھرا تھا، نئے سال منانے بنکاک جاتے لاپرواہوں سے۔ جہاز میں کچھ دور بیٹھی گوری لڑکی پر تو وہ وارفتگی طاری تھی کہ وہ اونچا اونچا گارہی تھی۔ ایک شراب کا گلاس پیتی تھی اور پھر نیا سر لگاتی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ بھی کبھی کبھی لے میں اپنا حصہ ڈالتا تھا۔ انگریزی گانے اور کھانے ہماری سمجھ میں کبھی نہیں آئے، اور کئی عقلمندوں سے برخلاف جو چیز ہماری سمجھ میں نہ آئے اسے عموماً پسند بھی نہیں کیا۔ وہ لڑکی اپنے آپے سے باہر ہوتی تھی، ہمیں دیکھ کر تین چار دفعہ مسکرائی۔ اب مسکراہٹ ہماری سمجھ میں آتی ہے سو جواباً مسکرا دیا۔ کہنے لگی تجھے میرا گانا پسند آرہا ہے، سو اس کے بعد اس کے گانے میں اور شدت تھی۔ ہوش سے دیوانی ہوتی جاتی تھی، اور دیوانوں کو کون روک سکتا ہے، چاہے ایر ہوسٹسیں ہوں یا بوائے فرینڈ ۔ آسڑیلیا کے ایرپورٹ پر حکومتی اعلان آسڑیلین مسافروں کو تھا کہ اگر تھائی لینڈ میں بچوں کے ساتھ جنسی عمل کا الزام بھی ہوا تو یہ آسڑیلیا میں بھی قانونی طور پر قابلِ سزا ہوگا، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل نہ ہوگا۔ سو بنکاک کی وجہ ِشہرت کئی ہیں۔ ویت نام جنگ کا اثر اس ملک پر آیا ہے۔ جان لیں کہ جنگیں علاقے ہی نہیں معاشرے بھی تباہ کر دیتی ہیں۔
سو لاہور سے جہاز بنکاک کے لیے اڑا۔ جہاز جب بھی اڑتا ہے تو ذہن میں کئی خیال آتے ہیں، ان جہازوں کا خیال جن کی خبریں دیکھی یا سنی تھیں کہ اڑے اور پھر تباہ ہوگئے۔ سیٹ بیلٹ کے ساتھ اپنے آپ کو ہی نہیں باندھنا ہوتا ، بلکہ ذہن کی پرواز کو بھی باندھنا پڑتا ہے۔خصوصاً ٹیک آف کا وقت پیٹ اور ذہن دونوں میں ارتعاش لاتا ہے۔
میری نشست راستے کے ساتھ تھی۔ اس نشست کا فائدہ ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کو تکلیف دیے بغیر آپ اٹھ کر چل پھر سکتے ہیں۔ ساتھ کی سیٹ پر ایک درمیانی عمر کے صاحب بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی گود میں ایک جلد بند رجسٹر رکھ لیا۔ پہلا صفحہ پلٹا تو کسی ڈرامے کا سکرپٹ تھا جسے وہ پڑھنے لگ گئے۔ کچھ دیر میں اندازہ ہوا کہ کسی ڈرامے کی شوٹنگ کی ٹیم بنکاک جارہی ہے۔ ٹیم میں کچھ لڑکیاں تھیں اور انہیں سے ملتے جلتے دو لڑکے جو شاید ہیرو تھے، باقی کچھ خرانٹ تھے۔
جہاز ٹیک آف کے بعد سیدھا ہوا ، راستے کی دوسری طرف بیٹھے انکل کی طرف دیکھا ، وہ دعا مکمل کر کے اپنے گریبان میں پھونک مار رہے تھے۔ ایر ہوسٹسیں ابھی اپنی سیٹ بیلٹیں کھول کر سانس ہی لے رہی ہونگی کہ اُدھر ساتھ کی سیٹ پر بیٹھے ڈائریکٹر ِڈرامہ نے نشست کے اوپر لگا بٹن دبا دیا ۔ گمان ہے کہ ایر ہوسٹسوں نے جہاز میں سوار چھوٹے بچوں کے لیے رکھے گئے تحفہ کھلونے بھی ابھی نہ پکڑے ہونگے کہ صاحب کی جانب سے پکار پڑ گئی۔


ایک چھوٹی سے چھوئی موئی فضائی میزبان آئی۔ کہنے لگے ایک شراب کا پیگ لے آو۔ انہوں نے لاکر پیش کر دیا۔ ڈائریکٹر صاحب ڈرامے کے دو صفحے پڑھتے تھے ، اور اتنے میں گلاس ختم کر لیتے تھے۔ اس کے بعد ہاتھ بلند کرتے اور بٹن دباتے تھے۔ مفت کی شراب قاضی کو حلال ہوگی مگر انہوں نے تو حلال ذبح کرنے کے معنی میں لیا ہوا تھا۔ لا پلا دے ساقیا پیمانہ پیمانے کے بعد۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ منی بیگم کی گائی غزل اُس منی ایر ہوسٹس نے سنی ہوئی تھی کہ وہ پیمانے کے بعد پیمانہ لا کر دیتی تھی ۔ اور ہمیں فکر تھی کہ کب یہ ڈائریکٹر صاحب آپے سے باہر ہوتے ہیں اور اڑتے جہاز میں ڈرامہ بنتا ہے۔
پرواز جاری تھی اور ان کی فرمائش بھی جاری تھی گو اب ہاتھوں میں لغزش آگئی تھی۔ اور اسی لغزش میں انہوں نے شراب کا پیمانہ مجھ پر الٹ دیا۔ جین کی پہنی پینٹ سیراب ہوگئی، نیلا رنگ اور بھی گہرا ہو گیا۔ کیا کہتے، جو خود آپے میں نہیں اُس سے کیا تو تڑاخ کریں۔
گھنٹی پھر بجائی کہ لے آ، منزل آنے والی ہے، لے آ کہ سفر ختم ہونے کو ہے۔ گو وقتِ رخصت نہ تھا مگر ساقی نے بھی حالت دیکھ لی تھی، کہنے لگی بار بند کر دی گئی ہے۔ بار بند ہونے کا سن کر ہمارا بار کچھ کم ہوا۔
جہاز اترنے لگا تو مجھے کہنے لگے کہ معاف کیجیئے گا ، آپ کو میری وجہ سے زحمت ہوئی۔ جواباً عرض کیا ، “سفر کا پتا نہیں لگا کیونکہ سارا سفر آپ کی صحت اور اپنے کپڑوں کی فکر میں ہی کٹا”۔ کہنے لگےہم آرٹسٹ لوگ ہیں ، تھوڑا شوق رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے انکے اتنا ہی شوق کا تجربہ کافی تھا ، باقی انکی ٹیم تھی انکے شوق و ذوق اور جلد بند رجسٹر کا خیال کرنے کےلیے ۔

عاطف ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 73 posts and counting.See all posts by atif-mansoor