عطا الحق قاسمی کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ علم و فضل کی توہین ہے


کسی بھی ملک کی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کےبارے میں رائے زنی کوئی معقول رویہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس فورم کو سیاست کرنے کا پلیٹ فارم بنانے پر تلی ہو تو اس سے مفر بھی ممکن نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی سیاست سے عام شہری کے علاوہ اعلیٰ عدالت کے ججوں کو بھی اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے کیوں کہ عدلیہ کے ارکان بھی اس ملک کے شہری ہیں اور نظام کی کامیابی میں بطور شہری کردار ادا کرنا ان کا حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ تاہم یہ اظہار ووٹ کے ذریعے اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ بطور جج جب تک کوئی شخص اس عہدہ جلیلہ پر متمکن رہتا ہے، اسے سیاسی تبصرے کرنے اور سیاسی معاملات میں اظہار خیال کا حق نہیں دیا جاسکتا۔

 کوئی جج یا چیف جسٹس اگر یہ حق زبردستی حاصل کرنے کے درپے ہو تو صرف اس لئے اس سے درگزر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ملک کے اعلیٰ عدالتی عہدہ پر فائز ہے۔ بلکہ ایسی صورت میں تو یہ نشاندہی کرتے ہوئے باور کروانا ضروری ہوجاتا ہے تاکہ سپریم کورٹ یا کوئی بھی جج اپنی غلط روش کو ترک کرکے وہ کام کرے جو قانون اسے تفویض کرتا ہے۔ آج چیف جسٹس ثاقب نثار کی قیادت میں سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے سابق چئیرمین عطا الحق قاسمی کی تقرری کے بارے میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے اس تقرری کو نہ صرف غیرقانونی قرار دیا ہے بلکہ بیس کروڑ کے لگ بھگ رقم قاسمی صاحب کے علاوہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد سے وصول کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اس فیصلہ کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ تو قانون دان لیں گے لیکن اس کے متن اور مطالب سے یہ سمجھنا ہرگز مشکل نہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سیاسی نوعیت کا ہے جو سابقہ حکومت اور اس کے ساتھ کام کرنے والوں کے بارے میں منفی تصویر کو راسخ کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔

عطا الحق قاسمی ملک کے ممتاز دانشور، کالم نگار، ادیب اور ڈرامہ نگار ہیں ۔ انہیں اس عہد کاصاحب طرز مزاح نگار سمجھا جاتا ہے۔ وہ طویل عرصہ تک استاد رہنے کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے مقبول ڈرامے لکھتے رہے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے بعض ڈرامے ٹیلی ویژن ڈرامہ میں لازوال حیثیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستان کا سفیر رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے ۔ اس حیثیت میں قاسمی صاحب نے پاکستان کی سفارت میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ ملکی ثقافت کو متعارف کروانے اور اردو ادب کا کا نام بلند کرنے کے لئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔

عطا الحق قاسمی نے گزشتہ دس پندرہ سال میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حمایت کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ نواز شریف کو ملک کا آئیڈیل لیڈر سمجھتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بلاشبہ اپنی قلمی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ ان کے اس طرز عمل سے اختلاف کی گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی۔ ان کے لکھے ہوئے متعدد کالموں اور ان میں ظاہر کی گئی رائے کو بھی غلط کہا جاسکتا ہے لیکن علم و ادب سے شناسائی رکھنے والا کوئی فرد تو کیا، اس ملک کا کوئی عام شہری بھی بطور ادیب ان کے مقام و مرتبہ سے انکار نہیں کرسکتا۔ قاسمی صاحب جیسے لوگ کسی بھی قوم کا سرمایہ اور اس کے لئے وجہ افتخار ہوتے ہیں۔ قومیں ایسی گراں مایہ شخصیات کے علم و فضل، تجربہ اور مشاہدہ سے استفادہ کرنا اعزاز کی بات سمجھتی ہیں ۔ تاہم پاکستان ایک ایسا انوکھا ملک ہے کہ یہاں کی سپریم کورٹ ایسے دانشور اور ملک دوست شخص کو پی ٹی وی کے چئیرمین جیسے معمولی عہدہ کے لئے نااہل قرار دے کر قلم کے ایک مزدور سے دس کروڑ کے لگ بھگ رقم واپس لینے کا حکم دے رہی ہے۔

اگر عطا الحق قاسمی کا یہ قصور ہے کہ وہ نواز شریف کے حامی ہیں تو اس سے تو وہ خود بھی انکار نہیں کریں گے۔ لیکن انہوں نے یہ حمایت بطور صحافی اور قلم کار کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ کوئی بھی صحافی ’غیر جانبدار‘ نہیں ہو سکتا۔ ان کی اس رائے سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سچائی سے کیسے انکار کیا جائے گا کہ دنیا میں اگر پاکستان چند گنے چنے لوگوں کے نام سے جانا جاتا ہے تو ان میں عطا الحق قاسمی کا اسم گرامی شامل ہوگا۔

پاکستان کے ساتھ قاسمی صاحب کی وابستگی اور محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے متعدد مواقع ملنے کے باوجود بیرون ملک قیام کرنے اور اس طرح اپنے خاندان کے لئے سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی تمام تر صلاحیتیں ملک و قوم کی خدمت میں صرف کرنے کو ترجیح دی۔ 1999 میں جب پرویز مشرف نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو قاسمی صاحب بنکاک میں پاکستان کے سفیر تھے۔ انہیں نواز شریف سے تعلق خاطر ہی کی وجہ سے اس عہدہ پر مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن عطا الحق قاسمی کو سفیر بنا کر شاید نواز شریف نے قاسمی صاحب پر نہیں بلکہ ملک کے وقار اور مفاد پر احسان کیا تھا۔ کسی ملک کے لئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے کہ ایک نامور ادیب اس کی نمائیندگی کرے اور سفیر کے طور پر اس کے مفادات کے فروغ کے لئے کام کرے۔

باقی اداریہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali