ہم لبرل نہیں ہیں!


پاکستان میں جو موضوع ہر وقت ہر سطح پر تواتر سے زیر بحث رہتا ہے وہ ہے ملک دشمن لبرل۔ اور لبرل پر مغرب کے ایجنٹ اور کبھی کبھار یہودی لابی کا حصہ ہونے کا الزام اور انتہائی صورت میں غدار وطن کا الزام لگ جاتا ہے۔ پاکستان میں عوام کی مجموعی سوچ اس بات پر متفق ہے کہ لبرل کافر ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ دائرہ اسلام سے ہی نہیں تو یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ وہ اسلام کے نام پر بنے ملک کے خلاف ہی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ لبرل وہ طبقہ ہیں جو نہ گھر کے ہیں نا گھاٹ کے۔ مذہبی جماعتوں کو ان سے کفر کی شعاعیں نکلتی دکھائی دیتی ہیں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ان میں غداری کے شواہد نظر آتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں حسبِ حالات ان دونوں میں سے اپنی مرضی کا قبلہ طے کرتی رہتی ہیں۔

لبرل کے ساتھ ہی جو حلیہ لوگوں کے ذہن میں آتا ہے وہ ہے مغربی لباس (یہاں عورتوں کے ساتھ حسبِ روایت خصوصی دلچسپ ہے ) اور تمام حرام لوازمات کے ساتھ گزارے جانے والی زندگی جس میں سوائے عیش اور عشرت کے کچھ نہیں۔ لبرل تاریخ اور فلسفے کی بحث فیشن کے طور پر کرتے ہیں ورنہ ہماری ریاست نے کیا غلط کیا ہے سقوط ڈھاکہ سے خادم رضوی سے معاہدے تک کا سفر اپنے آپ میں ہماری ریاستی پالیسیوں کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اس ریاست کی آب و تاب پر نازاں سکرپٹ رائیٹرز کا خیال ہے کہ لبرل جب اپنی عیاشی سے فارغ ہوتے ہیں تو وہ خواہ مخواہ کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بے تکے سوال کرنے لگتے ہیں۔ اور سچ بھی تو یہی ہے کہ بھلا ریاستی اداروں کی حدود پر اخلاقی حدود سے گرے ہوئے لوگ کیوں کر سوال کر سکتے ہیں۔

ریاست مذہبی جماعتوں یا مذہب کا نام استعمال کر کے دکان چمکانے والوں کے ساتھ شادی کر لے یا ناجائز تعلقات رکھے۔ ملک دشمنی سے بھرے لبرل کیوں تلملاتے ہیں۔ جنہوں نے کبھی سجدہ نہیں کیا (عین قیاس ) وہ ریاست سے کیسے پوچھ سکتے ہیں کہ مذہب کا ٹھیکہ کس کو دینا ہے اور کس سے لینا ہے۔ آخر ان خونی لبرلز کو کیا حق کہ یہ دینی اور مذہبی جماعتوں سے اسلام کی تعلیمات اور رہنما اصولوں پر حجت کریں۔ ان کا مقصد صرف توجہ کا حصول ہے۔ مگر ان لبرل کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ریاست دشمن کی تمام سازشوں کے باوجود قائم ہے جب کہ لبرل چاہتے ہیں کہ یہ قائم نا رہے اس لئے وہ ریاست کے خادم صاحب جیسے لوگوں پر التفات سے جیلس ہیں۔ مگر کہتے ہیں نا کہ جلنے والے کا منہ کالا۔

آخر کیا ہی کیا ہے خادم رضوی نے کہ لبرل چاہتے ہیں کہ ریاست ان کو سزا دے۔ خادم رضوی ریاست کو گالی دیتا ہے جو دیتا ہے گالی وہ خود ہوتا ہے۔ ریاست اس سے زیادہ مؤثر جواب دے سکتی ہے کیا؟

ہم تو لبرل نہیں۔ ہماری تو بلا سے آپ اس ملک کے بچوں کو نفرت اور عدم برداشت اور تشدد پڑھائیں یا چوراہوں پر لوگوں کو قتل کرنا سکھائیں۔ ہمیں کیا غرض کہ آپ ریاست کو یرغمال بنا کر رکھیں اور استحصال کے ذریعے اقتدار پر قابض رہیں۔ ہم تو لبرل نہیں ہیں ہمیں جبر کے زمانے راس ہیں آ پ دھونس اور دھاندلی سے سچ بولنے والوں کو دبا کے رکھیں۔ ہمیں آخر بنیادی آزادیوں کی رکھوالی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ریاستی ادارے سب کام احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں آئین اور قانون کی بالا دستی ہے ایک وزیر کی گائے بھی غریب کا حق نہیں مار سکتی غریب کی گائے کو تو اوقات میں ہی رہنا چاہیے۔ بلاگرز کا جب دل چاہے غائب ہو جاتے ہیں کوئی انہیں روک ٹوک نہیں اور کون سی آزادی مانگتے ہیں لبرل۔ اور کچھ قدرت کے معجزے بھی ہیں جیسا کہ قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے معاملے میں ہوا۔ اللہ کی شان کہ یہ تقریر صرف لبرل کو ہی یاد رہتی ہے اور ہم تو اسی میں خوش ہیں کہ ہم لبرل نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).