کرشن چندر علامہ اقبال کی شاعری پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے


کرشن چندر کو علامہ اقبال کی شاعری بہت پسند تھی ، ایف سی کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد والد کی خواہش پر بادل نخواستہ کرشن چندر نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی تو کر لیا مگر وکالت کرنے پر ان کی طبیعت مائل نہ ہوئی تو انھیں علامہ اقبال کی شاعری پر ڈاکٹریٹ کا خیال سوجھا جس کو پنجاب یونیورسٹی نے پذیرائی نہ بخشی۔ یاد رہے کہ فیض احمد فیض جس زمانے میں ایم اے اوکالج امرتسرمیں انگریزی کے استاد تھے تو ان کا بھی جدید اردوشاعری پر ڈاکٹریٹ کا ارادہ بنا تھا، اوراس سلسلے میں انھوں نے تحقیقی مقالے کا خاکہ بھی جمع کرایا، مگر پنجاب یونیورسٹی کو گوارا نہ ہوا کہ وہ ’’ڈاکٹر‘‘ بنیں۔ کرشن چندرکے ڈاکٹر بننے کی راہ میں معروف اسکالر داؤد رہبر کے عالم فاضل والد رکاوٹ بنے۔ کنھیا لال کپور نے ان کے ساتھ کرشن چندر کے مکالمے کو موقع کے گواہ کے طور پر یوں بیان کیا ہے۔

’’ انھیں بتایا گیا کہ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اقبال، صدرشعبہ فارسی اورینٹل کالج لاہور ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ایک دن وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر ڈاکٹر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ بڑی بے رخی کے ساتھ پیش آئے۔ فرمایا:

’’ریسرچ کے معنی ہوتے ہیں، گمشدہ کی تلاش۔ اقبال کے متعلق ایسے کون سے واقعات ہیں، جن کو آپ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

کرشن چندر اور سلمیٰ صدیقی

کرشن چندر بولے:’میرا موضوع ہو گا، ’اقبال بحیثیت شاعر۔‘

’اس پر تو آپ سے پہلے کئی لوگ لکھ چکے ہیں۔ ‘

’میں اپنے نقطہ نظر سے لکھنا چاہتا ہوں۔‘

’آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟ ‘

’اقبال فطرتاً ترقی پسند شاعر ہیں۔‘

’لیکن انھوں نے کبھی ترقی پسند شاعرہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔‘

’اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔‘

’فرق کیوں نہیں پڑتا۔ یہ تو مدعی سست اورگواہ چست والی بات ہے۔ ‘

’بعض اوقات شاعراپنی عظمت سے واقف نہیں ہوتا۔ آپ شیکسپیئرکی مثال لے لیجئے۔ ‘

’ یہ آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا کہ اقبال اپنی عظمت سے واقف نہیں۔ ‘

’خود اقبال نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ ‘

’کہاں؟ ‘

’ان کا یہ مصرع آپ کی نظرسے گزرا ہوگا:

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے

اور پھر ان کا وہ شعر:

ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبال اپنے آپ کو

آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں‘

’وہ تو شاعرانہ تعلی ہے۔ خیرآپ کی فارسی کی استعداد کتنی ہے؟‘

’خاصی ہے۔‘

’خاصی سے کام نہیں چلے گا۔ ‘

’کیا آپ کو صرف یہی اعتراض ہے؟ ‘

’یہ بھی ہے۔ لیکن سب سے اہم اعتراض یہ ہے، اقبال ابھی تک زندہ ہیں اورہم کسی زندہ شخصیت پر کسی شخص کو تھیسز لکھنے کی اجازت نہیں دیتے ۔‘‘

کرشن چندرکو ڈاکٹرمحمد اقبال کے آخری فقرے سے بہت رنج پہنچا۔ کئی دن وہ اس ذہنیت کو کوستا رہا۔ ’ہم بھی عجیب مردہ پرست واقع ہوئے ہیں۔ جب تک کوئی ادیب اللہ کو پیارا نہ ہوجائے اسے ادیب ہی نہیں سمجھتے۔‘‘‘

کنھیا لال کپور نے لکھا ہے کہ وہ بھی اقبال کے پرستار اور ان سے عقیدت رکھتے تھے، لیکن کرشن چندر کو چڑانے کے لیے ان پر تنقید کرتے تو وہ اس کا بہت برا مانتا۔ جگن ناتھ آزاد نے کرشن چندر کے خاکے میں بتایا ہے کہ وہ لاہور میں ایک روز ان کے ہاسٹل خاص طور پر ان سے کلام اقبال سننے کے لیے آئے تھے۔

علامہ اقبال کو ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں افراد نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کسی نے انھیں فاشسٹ قراردیا تو کسی نے رجعت پسند۔ فیض احمد فیض کے بقول، 1949 میں اقبال کو باقاعدہ  demolishکرنے کا حکم صادر ہوا ۔ فیض کا رویہ اپنے انتہا پسند نظریاتی ساتھیوں سے مختلف تھا اور وہ ان کی لائن  Toe کرنے پر تیار نہ تھے ۔ وہ اقبال کے خلاف مہم کا حصہ، اول تو اس لیے نہ بنے کہ وہ اسے انتہا پسندی سمجھتے تھے، دوسرے وہ اقبال کے ادبی مرتبہ کا صحیح فہم رکھتے تھے۔ انھوں نے اقبال کے بارے میں نظم بھی لکھی ۔ ترقی پسندوں کی طرف سے اقبال کے خلاف مہم پر فیض اس قدر برافروختہ ہوئے کہ انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں جانا چھوڑ دیا۔ فیض کے بقول:

’’ ۔۔۔پھر ایک روز مظہر علی خان کے گیراج میں انجمن کی میٹنگ ہوئی ۔ صفدر میر صدر تھے ۔ قاسمی صاحب نے علامہ اقبال کے خلاف ایک بھرپور مقالہ پڑھا ۔ ہمیں بہت رنج اور صدمہ ہوا ۔ ہم نے اعتراض کیا کہ یہ کیا تماشا ہے۔ آپ لوگ کیا کررہے ہیں۔ یہ تو سکہ بند قسم کی بے معنی انتہا پسندی ہے۔ ہماری نہ مانی گئی ۔ ہم بہت دل برداشتہ ہوئے ۔ اس کے بعد ہم انجمن کی محفلوں میں شریک نہیں ہوئے اور صرف پاکستان ٹائمز چلاتے رہے۔‘‘

فیض احمد فیض کے بعد کرشن چندر وہ ادیب ہیں، جنھوں نے اقبال کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف، اس زمانے میں کیا، جب وہ ترقی پسندوں کو بہت کھلتے تھے ۔ کرشن چندر نے اقبال پر ڈاکٹریٹ کرنے کا ہی ارادہ ظاہر نہیں کیا بلکہ ان کی وفات پر ’’ٹربیون‘‘ میں تعزیتی مضمون لکھا اوران کی چند نظموں کا ترجمہ کیا۔’’ ادبی دنیا‘‘ میں اقبال پر ان کا تعزیتی مضمون شائع ہوا، جس کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:

’’ اقبال دور جدید کا شاعر ہے، ایشیا کی حیات ثانی اور بیداری کے زمانے کا۔ اس نے مغربی فلسفے کی مادہ پرستانہ تنگ نظری کے خلاف اس وقت علم بغاوت بلند کیا جب کہ بادی النظر میں مغرب ہر حیثیت سے مشرق پر قابض ہو چکا تھا اورعوام ایک ایسے وقت کے منتظر تھے جب مشرقی تہذیب مجموعی حیثیت سے مغربیت کے طوفان میں گم ہوجانے والی تھی۔ اس نازک موقعے پراقبال نے اپنا سب سے پہلا نعرہ جنگ بلند کیا

شفق نہیں مغربی افق پر یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے

طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).