فساد پھیلانے والے احساس کمتری میں مبتلا ہیں


پاکستان میں اتنے مسئلے آخر کیوں ہیں؟ ملک ہے یا مسائل کا گھنا جنگل۔ جس کا دل چاہتا ہے احتجاج کے نام پر شاہراہیں بند کردیتا ہے۔ ظلم کے نام پر جدوجہد کا رخ مظلوم کی جانب ہی موڑ دیتا ہے۔ دھرنا دے کر عوام کا کاروبار ٹھپ کردیتا ہے۔ اس منفی عمل سے انفرادی سطح پر عام آدمی کے علاوہ مجموعی طور پر ملک کو اربوں کھربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ تعمیر کے بجائے تخریب کاری کی جاتی ہے۔

کاروبار زندگی کو مفلوج کرنے کے بجائے احتجاج کسی میدان میں بھی تو کیا جاسکتا ہے جس کو میڈیا نشر کرے لیکن کسی مریض کا راستہ نہ رکے، شادی بیاہ کی تقاریب وقت پر منعقد کی جاسکیں، طالب علم اسکول کالج جاسکیں، مزدوروں کے گھر کا چولہا جل سکے۔ پھر سڑکیں بند کرکے ہلہ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مقصد۔ احتجاج کے نام پر خوف پھیلانا، بدمعاشی کا سکہ جمانا ہے۔ ملک کے مفاد کی بات کرنے والے عمل الٹا کرتے ہیں۔ اللہ کے ٓاخری نبی نے تو کسی کا بھی راستہ روکنے سسے سخت منع فرمایا ہے۔

دھرنے کی وجہ کوئی بھی ہو۔ سیاسی جماعت کرے یا مذہبی۔ ریاست کو کسی صورت اجازت نہیں دینی چاہیے۔ قانون توڑنے والے کو عبرت کا نمونہ بنادینا چاہیے۔ سزا ایسی خوف ناک ہو کہ قانون شکن خواب میں بھی تصور نہ کرے لیکن ریاست کی رٹ، قانون کی بالا دستی ملک میں کہیں نظر نہیں آتی۔ مذہبی جتھے، سیاسی ٹولے انسانیت کی خدمت کے بجائے ستیاناس کرتے نظر آتے ہیں۔ دھرنا خون آشام بلا کی مانند ہے جو صرف عوام کا خون پینا جانتی ہے۔

کوئی بھی شخص احتجاج کے نام پر ٹھیلے والوں کو لوٹنے، گاڑیوں کو جلانے اور املاک کو نقصان پہنچانے کو صحیح ثابت نہیں کرسکتا۔ جو لوگ یہ منفی ہتھکنڈے آزماتے ہیں وہ اپنی بائیک یا گاڑی کو کیوں نہیں جلاتے، خود کو آگ کیوں نہیں لگاتے۔

احساس کمتری کے مارے ان بے حس ظالموں کو دوسروں کا نقصان کرکے جانے کس برتری یا طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ گستاخی ہالینڈ میں کی جاتی ہے اور شرپسند توڑ پھوڑ پاکستان میں کرتے ہیں، انتہاپسندوں کی وجہ سے عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ نفسیات دانوں کے مطابق فساد پھیلانے والوں میں احساس کمتری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اور فتنہ کرکے ان پتھر دلوں کے سفلی جذبات کو تسکین ملتی ہے۔

ذمہ داری عوام کے کاندھوں پر بھی آتی ہے جن کو دھرنا دینے والے نام نہاد رہنماؤں کی حوصلہ شکنی اور ایسے مظاہروں کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ جلاؤ گھیراؤ کرنے والے جہالت کا ثبوت دیتے ہیں۔ ملک کی ترقی کا پہیہ جام کرتے ہیں۔

ایسے افراد ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن احتساب کا خوف، سزا کا ڈر غلط کاریوں سے روکتا ہے۔ قرار واقعی سزا ہونی چاہیے جو چند افراد کو دی جائے لیکن ریاست کا رعب و دبدبہ قائم ہو اور شیطان کے چیلوں کی خوف سے گھگھی بندھہ جائے۔

ہم لوگ ملک اور مذہب کا جذباتی نعرہ لگانے والوں کے پیچھے صرف فرقہ، رنگ، نسل دیکھہ کر آنکھوں پر پٹی باندھہ کر چل پڑتے ہیں اور معاشرے میں برائی پھیلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ شعور کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).