نہ جانے کیا ہوگا حال


آج کا ہمارا موضوع ہے نہ جانے کیا ہوگا حال۔

جیسا کہ نام سے ہی واضح ہے کہ ہم آ نے والے مستقبل کی بات کررہے ہیں۔ کہ مستقبل میں ہمارا کیا حال ہونے والا ہے۔ اگر اس موضوع کو ماضی سے جوڑا جائے تو معلوم ہوگا کہ پہلے کے دور میں لوگ کس طرح مذہبی تہواروں کو مذہبی جوش و خروش سے مناتے تھے۔ والدین ذمہداری کے ساتھ بچوں کی تربیت کرتے تھے۔ اپنے مذہبی اقدار ان میں منتقل کرتے تھے مگر اب تو ہوئی یہ پرانی بات کیونکہ آ ج کا دور جدید ہے ماڈرن ہے۔ جس کے باعث معاشرے میں جو مذہب کی جڑیں ہیں وہ کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔

آ ج کل کہ نوجوان ان تہواروں کو صرف چھٹیوں اور تفریحی نظریہ سے دیکھتے ہیں شاید انہیں مذہب اور مذہبی تہواروں سے واقفیت ہی نہیں۔ ہماری نسلوں میں آ ئی یہ تبدیلی مثبت نہیں بلکہ منفی ہے جو معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے کر جارہی ہے۔ اسی بات کو اگر منسلک کریں آ ج کل کے نئے ٹرینڈز سے تو آ ج کل یہ جو نت نئے ٹرینڈز چل پڑے ہیں جن میں گیمز۔ ملبوسات۔ ہیئر کٹس ٹک ٹاک نامی اور دیگر موبائل فون ایپ جس میں آپ اس شخص کے ساتھ ویڈیوز بناتے اور مختلف سائٹس پر اپ لوڈ کرتے ہیں جن کو آ پ جانتے بھی نہیں۔

پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ نیکی کر اور دریا میں ڈال مگر اب یہ ہے کہ کچھ بھی کر فیس بک انسٹا اور واٹس اپ ڈال۔ ان تمام سرگرمیوں نے پوری دنیا اور خصوصاً مشرقی دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔ پرانے گانوں کے بنائے جانے والے نئے ریمیکس اور پھر ان کی تعریف یا تمسخر میں بنائے جانے والے پوسٹس نوجوان نسل صرف اس ہی میں اپنا اور مستقبل دونوں برباد کررہے ہیں اس کی مثال بالکل ریل گاڑی کی سی ہے کہ جس طرح ریل کے سارے ڈبے اس کے انجن کی پیروی کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی مشین کے کل پرزے کی طرح اندھا دھند ان ٹرینڈز کی پیروی کررہے ہیں۔ ہمیں احساس کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کیا صرف اس لئے ہی ہمیں اشرف المخلوقات بناکر تمام

مخلوقات پر افضل بنایا گیا تھا کہ ہم ان فضول سرگرمیوں میں اپنا وقت اور پیسہ دونوں برباد کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر سنجیدہ ہوکر سوچا جائے۔ کیونکہ احساس ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).