جو مرضی کھاؤ، میرا سر نہ کھاؤ


مریض اپنے کھانے پینے کے بارے اپنی بیماری سے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ دل کے دورے کے بعد بھی ذرا سکون آتے ہی پوچھتے ہیں ”میں کیا کھاوں“۔ ڈاکٹر کو اس کی زندگی کی فکر ہوتی ہے اور مریض کو کھانے پینے کی۔ بار بار اسی سوال کے تکرار پر کئی دفعہ تنگ آکر ڈاکٹر کہ اٹھتا ہے ”جو مرضی کھاؤ میرا سر نہ کھاو“۔ کھانے کے علاوہ زیادہ تر لوگ قبض کے بارے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ بیمار آدمی جب کچھ کھائے گا نہیں تو پاخانہ کیوں آئے گا۔ لوگ اپنی بیماری بھول کر قبض کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ کچھ چیزیں اتنی تکرار سے پوچھیں گے کہ ڈاکٹر پریشان ہو جا ئے۔

”ڈاکٹر صاحب دودھ پی لوں؟ “
”پی لو دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں“
”ٹھنڈا یا گرم؟ “
”جیسے آپ کا دل چاہے“۔

”ٹھنڈا دودھ مجھے کھانسی کرتا ہے“۔
”تو گرم کر لیا کرو“۔
”دودھ پتی ڈال کر پینا ہے یا سادہ؟ “
”جیسے آپ کی مرضی“۔

”تھوڑی چینی ڈال لوں؟ “
”کوئی فرق نہیں پڑتا“

ایک مریض نے آنکھ کے اپریشن کے بعد ڈاکٹر سے پوچھا۔
”ڈاکٹر:میں کھانا کھا سکتا ہوں؟ “
میں نے آپ کو کھانا کھانے سے تو منع نہیں کیا ”
” سالن میں گھی ڈالنا ہے؟ “
”ڈال لیں“
لوگ تو کہتے ہیں آنکھ کے اپریشن کے بعد گھی والا سالن نہیں کھانا چاہیے ”۔

گھی کھانے سے آنکھ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ”
”مرچ کالی ڈالنی ہے یا سرخ“
”بھائی کالی کھائیں یا سرخ کچھ نہیں ہوتا“

”لیکن لوگ کہتے ہیں آنکھ کے اپریشن کے بعد سرخ مرچ نقصان دہ ہوتی ہے“
”آپ کو میری بات پہ یقین نہیں تو مجھ سے علاج کیوں کروا رہے ہو؟ “

سات دن کے بعد وہی مریض واپس آنکھ چیک کرانے آیا تو ڈاکٹر سے پھر وہی سوال دہرایا۔ ”ڈاکٹر صاحب:میں اب کھانا کھالوں۔ کئی دن ہو گئے، میں ڈبل روٹی اور رس کیک کھا کھا کے تنگ آگیا ہوں“۔ مگر میں نے تو آپ کو کھانا کھانے سے بالکل منع نہیں کیا۔ ”
ڈاکٹر نے آنکھ کے اپریشن کے بعد مریض کو منع کیا ”آپ کی آنکھ نئی نئی بنی ہے۔ آپ نے سر نہیں جھکانا۔ اس سے آنکھ پر دباؤ آئے گا“۔
”میں سجدہ نہ کروں۔ آپ مجھے نماز پڑھنے سے منع کر رہے ہیں۔ “

ڈاکٹر نے سمجھایا مخصوص حالات میں اشارے سے نماز ہو جاتی ہے۔ سجدہ کرنا ضروری نہیں۔ سجدہ اشارے سے کرلیں۔ مریض مرنے مارنے پر تیار ہو گیا۔ ڈاکٹر کو کافر قرار دے دیا۔ ڈاکٹر نے مریض کو کہا ”بھائی آپ امام مسجد کے پاس چلے جاتے وہ آپ کی آنکھ کا اسلامی اپریشن کردیتا اور کئی دن کا روزہ رکھوا دیتا تاکہ آپ کالی لال مرچیں کھانے سے بھی بچ جاتے“۔

سب سے اچھے مریض بچے ہوتے ہیں۔ سچے اور کھرے۔ بیمار ہیں تو بستر پرپڑ جاتے ہیں۔ جونہی ٹھیک ہوئے کھیل کود میں مصروف۔ بچوں سے محبت کا یہ عالم ہے۔ کسی بچے کا اپریشن ہو تو سارا خاندان اکٹھا ہو جاتا ہے۔ اور کوئی بوڑھا بیمار ہو تو اکثر اوقات وہ اکیلا ہی ہسپتالوں کے چکر لگانے پر مجبور ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).