جہاں محبت کی سزا موت ہے


جمے ہوئے خون پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں، بال بکھرے ہوئے ہیں اور روشنی سے عاری آنکھیں اپنی جگہ ساکت ہیں۔ گردن ایک طرف لٹک رہی ہے تو دھڑ دوسری طرف، تیز دھار چھری سے اس لڑکی کا گلا کاٹ دیا گیا ہے۔ یہ محبت کی سزا ہے۔

نحیف سے جسم والی چھبیس سالہ مدیحہ کی لاش چند روز پہلے ایک کھیت سے ملی تھی۔ ایک مقامی کسان نے دیکھتے ہی پولیس کو فون کیا۔ موقع پر بنائی جانے والی تصاویر دیکھنے کے لیے بھی پتھر جیسا سخت دل چاہیے۔ کٹے ہوئے گلے سے دائیں جانب بہنے والا خون کچھ مٹی چوس چکی ہے اور کچھ دوپٹے پر جم چکا ہے۔ جسم سے سارا خون بہہ جانے کی وجہ سے تیکھے نین نقش والی اس لڑکی کا سانولا چہرہ خزاں کے پتے کی طرح پیلا پڑ چکا ہے۔ آدھی کھلی دائیں آنکھ کے اندر تین چار تنکے گھسے ہوئے ہیں، پپڑی جمے ہونٹوں میں دانت نظر آ رہے ہیں اور دانتوں کے شکنجے میں زبان دبی ہوئی ہے۔ موت سے پہلے شاید اس لڑکی نے ایک مرتبہ پھر بھاگنے کی کوشش کی ہو، کمزور بازووں سے خود کو چھڑوانے کی کوشش بھی کی ہو، شاید یہ زور زور سے چیخی بھی ہو اور شاید قاتلوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی ہو اور چند سانسوں کی بھیک بھی طلب کی ہو۔ لیکن قاتل طاقتور تھے ان کے سینوں میں دل نہیں پتھر تھے۔

مدیحہ کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے گاؤں بڈھا گورائیہ سے تھا۔ نوشہرہ ورکاں کے پولیس انسپکٹر علی اکبر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”اس لڑکی نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ اسے اس کی والدہ اور دو بھائیوں نے مل کر غیرت کے نام پر قتل کیا ہے۔ “

چار برس پہلے یہ ایک لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوئی اور گھر سے بھاگ گئی تھی۔ چند روز پہلے اس کے والدین نے مقتولہ کی بڑی بہن کے ذریعے اس سے رابطہ کیا۔ اسے یقین دلایا گیا کہ اگر وہ گھر واپس آئے تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ پولیس کی حراست میں موجود لڑکی کی والدہ اقبال بی بی نے ڈی ڈبلیو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مدیحہ کا قتل کیسے کیا گیا تھا، ”ہم اس کے پاس گئے اور کہا کہ تم واپس آ جاؤ، ہم تمہیں معاف کرتے ہیں۔ واپسی کے راستے میں دونوں بیٹوں نے مجھے کہا کہ تم موٹر سائیکل کے پاس رکو، میں وہاں کھڑی رہی اور انہوں نے مدیحہ کھیتوں میں لے جا کر اس کا گلا کاٹ دیا۔ “

پولیس نے مقتولہ کی جیب میں موجود ایک ٹیلی فون نمبر کے ڈیٹا سے ملزمان کو تلاش کیا اور اگر یہ ٹیلی فون نمبر نہ ہوتا تو یہ بھی کئی دیگر لڑکیوں کے طرح کسی بے نام قبر میں اتار دی جاتی اور اس کے قاتل بھی کبھی نہ پکڑے جاتے۔ تینوں ملزمان کا کہنا ہے کہ مدیحہ نے اپنی محبت کے لیے گھر سے بھاگ کر ان کی عزت کو خاک میں ملا دیا تھا۔

مدیحہ وہ پہلی یا آخری لڑکی نہیں ہے جسے غیرت نام پر یا پھر محبت کرنے کے جرم میں اس بے دردی سے قتل کیا گیا ہو۔ پاکستان میں سالانہ سینکڑوں ایسی خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئرپرسن زہرا یوسف کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”سن دو ہزار سترہ میں غیرت کے نام پر تقریبا سات سو قتل کیے گئے تھے۔ عموماً ایسے رجسٹرڈ کیسوں کی تعداد ایک ہزار سے سات سو کے درمیان ہوتی ہے۔ “

گزشتہ بدھ پنجاب کے ہی شہر رحیم یار خان میں دو بہنوں کو ایک ساتھ گلا دبا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق یہ دونوں لڑکیاں اپنے کسی دوست سے ملنے گئی تھیں، جونہی گھر پہنچی تو چچا زاد بھائیوں نے غیرت کے نام پر دونوں کو قتل کر دیا۔ پولیس نے ملزمان کو حراست میں لے لیا ہے۔ اس سے ایک روز بعد نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے آبائی علاقے سوات میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کو عدالت میں خنجر کے وار کرتے ہوئے قتل کر دیا۔ مقتولہ اپنی شوہر سے طلاق لیتے ہوئے اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہتی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے اصل اعداد و شمار حاصل کرنا ناممکن ہے۔ بہت سے کیس پولیس کو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ لاش کا پوسٹ مارٹم ضروری نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے گھر والوں کی طرف سے لڑکی کے قتل کو فطری موت ظاہر کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو غیرت کے نام پر کیوں قتل کیا جاتا ہے؟ اس حوالے سے زہرا یوسف بتاتی ہیں، ”پاکستانی معاشرہ بڑی حد تک جاگیردارانہ، قدامت پسند اور روایتی ہے۔ مرد عورتوں پر کنٹرول چاہتے ہیں، انہیں اپنی پراپرٹی سمجھتے ہیں۔ کسی طرح کی آزادی دینا مناسب نہیں سمجھتے۔ یہ ایک روایت ہے اس خطے کی، بھارت اور افغانستان میں بھی اسی طرح کے قتل ہوتے ہیں، اسے تبدیل ہونے ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ “ پاکستان میں عزت کے نام پر سزائیں نہ صرف انفرادی بلکہ دیہی علاقوں میں جرگے اور پنچایتیں بھی سناتی ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2