قصہ پھٹیچر قوم اور قاضی قرطبہ کا


یہ گزرے وقتوں کے شہر بغداد کا قصہ ہے؛ جب کا ماجرا ہے، تب وہاں انصاف کا دور دورہ تھا۔ شاہی تاریخ نویس لکھتا ہے، کہ اُس دور میں نہ کوئی پھٹیچر قاضی تھا، نہ کوئی پھٹیچر سیاست دان، نہ پھٹیچر طریقے سے ایشوز کو کھڈے لائن لگایا جاتا تھا، اور رعایا بھی نا سمجھ نہ تھی۔ اس زمانے میں پھٹیچر عوام کے جذبوں کی تسکین پھٹیچر ایشوز سے نہیں ہوتی تھی؛ کیوں کہ وہاں کرکٹ کا کھیل بہت مقبول نہ تھا، کہ حکومت ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کا فائنل بغداد میں کرواتی۔ اگر چہ ہر کس یہی کہتا آیا، اس کھیل کا فائنل سلطنت کے کسو شہر میں ہو، عالمی برادری بغداد کو پر امن خطہ تسلیم کرنے کو تیار نہ ہو گی۔ بادشاہ مخالف چوں کہ فائنل بغداد میں کروانے کے خلاف تھا، تو فائنل جتنا بھی کام یاب ٹھیرا ہو، اس نے مخالفت میں کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا۔ وہ کیسے قبول کرتا کہ کبھو کچھ غلط بھی کَہ سکتا ہے۔ ہے رام! چپ کا انعام بھی کیا ہے؛ میڈیا سے دُوری؟

 حاجی بغلول آڑھتی ہیں، لال مرچ سے لے کر فلفل سیاہ میں خشت اور کنکریاں پیس کر ڈالتے ہیں۔ نماز وقت پر ادا کرتے ہیں، کہ فرض کی ادائی اور پیشے کی مجبوری واضح ہے۔ پنواڑی ہو یا گھی کا بیوپاری سبھی جنس کو کنٹرول ریٹ پر بیچنے کو پیشے کی توہین سمجھتے ہیں۔ پیشہ کرنے والی رینو اور پینو کی اپنی مجبوریاں ہیں، لیکن سب سے ایمان دارانہ سودا یہی کرتی ہیں۔ مصیبت یہ ہے، کہ حاجی بغلول سے آنسہ پینو تک سبھی وہ کرتے ہیں، جس سے اُن کے کاروبار میں برکت ہو۔ جب حاجی بغلول خدا کے دین کے اوصاف بیان کرتے ہیں، تو جی چاہتا ہے، اُن سے دو بدو بات ہو جائے، کوئی ایسا کرنے کی خواہش ظاہر کرے، تو وہ بے دین نہ قرار دیا جائے؛ مذہب بے زار تو کہلاتا ہے۔ غضب خدا کا، ایسے بے ایمان لوگ مذہب کے فضائل بیان کریں؛ افسوس ہے۔ انصاف کرنے والے فیصلوں کے بہ جائے تقریر کریں، وائے زیاں۔ ہے رام! انصاف زمانے سے اُٹھ گیا۔

گئے دنوں کا ماجرا ہے، صاحبان کرامت نے یو ٹیوب جیسی خرافات پر پابندی عائد کر دی۔ پھر یہ ہوا کہ توہین کرنے والوں کی ماں مر گئی؛ باپ کوڑھی ہو کر مرا؛ بہن کافر کے ساتھ بھاگ گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نمک مرچ میں ملاوٹ سے توہین مذہب نہیں ہوتی، ہاں تھوڑا بہت گناہ ہوتا ہے، اور معاف کرنے والے کی رحمت سے مایوس کیوں ہوں۔ جھوٹ بولیے، رشوت لیجیے، ضعیف کا مال ہضم کر لیں، خدا معاف کرنے پر آئے تو کیا نہیں معاف کر سکتا۔ کہنے والے کہتے ہیں، یو ٹیوب علم کا خزانہ ہے، جھوٹ کہتے ہیں۔ ہم نے تو جب جب نظارہ کیا، چلتی پھرتی فحاشی کی دید ہوئی۔ اس خزانے سے کسی کافر کی نظر ہٹے تو کچھ اور دیکھا جائے۔ ہے رام! تو نے حسن کیوں بنایا؟ اور پھر حسن کی لوبھ کیوں رکھی؟

وہ کہتے ہیں، سوشل میڈیا پر تقدیس کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں؛ تسلیم ہے۔ دفتروں میں بیٹھ کر، دفتری اوقات میں سوشل میڈیا پر فرض کی ادائی کے بھاشن دینا کتنا حسین لگتا ہے! کاغذ پر لکھی قیمتوں سے زائد رقم وصول کرنا، پھر خدا کی شان بیان کرنا کتنا پر معنی ہے۔ ٹریفک سگنل پر کھڑے احمقوں پر لعنت بھیجتے، تین چار گاڑیوں میں سے دائیں بائیں ہوتے، مخالف سمت سے آتی گاڑی کا راستہ کاٹ کر گھر پہنچنا، اور سوشل میڈیا پر بیان داغ دینا کہ حکم ران قانون اور آئین کی پاس داری نہیں کرتے؛ یہ سب کچھ عین انصاف ہی تو ہے۔ شکر ہے ہمارا ایمان سلامت ہے۔

ہے رام! منافقوں کی زبان لمبی اور رسی دراز کیوں ہوتی ہے؟ ہے رام! جنتا کو ایسا بے بس کیوں بنایا۔

جھوٹ بولنا، رشوت دے کر شناختی کارڈ سے ڈرائیونگ لائسنس تک بنوا لینا۔ پٹواری کو نذرانہ دے کر پڑوسی کی زمین ہتھیا لینا، یا اپنے گھر کا کوڑا گلی میں پھینکنا۔ شریکوں کا حق غصب کرنا، دین کی ایک بھی بات پر عمل نہ کرنا؛ یہ توہین تو نہیں۔ توہین تو وہ ہے، جو عدو کرتے ہیں۔ یہاں کون ہے، جو یہ نہ کہتا ہو، یہاں سب بکتا ہے؟ ہاں! یہاں سب بکتا ہے! اک بازار ہے، جہاں ہر شے کی قیمت ہے۔ قاضی انصاف کرنے سے عاری ہے، اس کی پھٹیچر خطابت پر خوشی سے جھومنے والوں کو خبر نہیں ہوتی، کہ وہ کب کے بک چکے ہیں۔ اپنی بد اعمالیوں کے ہاتھوں شکست خوردہ ہیں۔ کوئی ماتمی تقریروں پر خوشی کا جشن مناتا ہو، ایسے کم عقل کو سورگ میں لے جا کر کیا کرو گے، رام؟ ہے رام!

گئے دنوں شہر بغداد میں کچھ قاضی تھے؛ منصفی ان سے نہ ہوتی تو تقاریر کرتے تھے کہ انصاف ہو رہا ہے۔ کچھ قاضی تو ایسے بڑھ چڑھ کر انصاف کی دہائی دیتے کہ رعایا کی مان ہی کر بنتی کہ اب راج کرتی ہے خلق خدا۔ قاضی کی زبان رواں ہے، فصاحت کا چشمہ جوش میں ہے، فیصلے البتہ خاموش ہیں۔ واللہ ایسے عادل قاضی اور ایسے پھٹیچر سائل اب کہاں؛ صد شکر! اب انصاف کا چرچا چہار سو ہے۔ ہے رام! تو نے ماضی کیوں بنایا؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran