ایمپریس مارکیٹ کی بحالی، مگر سندھ کے باقی شہر لاوارث کیوں؟


ایمپریس مارکیٹ کراچی، شہر کا مرکز اور کراچی کا لینڈ مارک ہے مگر انکروچمنٹ اور قبضہ گیروں نے اس کو اسی طرح یرغمال بنا رکھا تھا جیسے کوئی مافیا کسی علاقے کو فتح کر کے تاراج کرتی ہے۔ اس خوبصورت عمارت کے ساتھ کئی سالوں سے زیادتی جاری تھی۔ غریبوں کا شہر، غریب پرور شہر کہہ کر اس شہر کو امیروں اور غریبوں سب نے مل کر خوب لوٹا ہے، صدر کراچی میں ایک ریڑھے والا یا ایک فٹ پاتھ پر قبضہ کرنے والا نام نہاد غریب سیکرین سے ملا شربت، شادی ہالوں سے ملی بچی ہوئی بریانی، بیمار جانوروں کی کلیجیاں بیچ کر ہزاروں روپے کما کر گھر جاتا ہے مگر اپنی ریڑھے یا دکان کی جگہ کہ صاف رکھنا گناہ سمجھتا ہے۔

گنے کے جوس والا بجلی چوری کرکے، ہزاروں گلاس گنا جوس بیچ کر شام کو پانچ ہزار روپے گھر لy جاتا ہے مگر گنے کا سینکڑوں من پھوگ اور کچرا روڈ پر پھینک کر جاتا ہے۔ غریب پوری دنیا میں ہیں مگر ایسا قہر کہیں نہیں۔ ایمپریس مارکیٹ ہی نہیں صدر کراچی کی ہر گلی برٹش حکومت نے اتنی ہی خوبصورت بنائی تھی کہ آج بھی کسی عمارت کہ دیکھ کر اس کے حسن کی داد دیے بنا گزر جانا گناہ لگتا ہے۔ میں تو بار بار کہتا ہوں، انگریزوں نے کیا کمال انصاف کیا، لنڈن، کراچی اور بمبئی کو ایک ہی نقشہ پر بنایا۔

مگر ہمارے بھائیوں نے کاروباری قبضہ گیری کرکے اس شہر کی عزت ہی لوٹ لی۔ اس شہر سے صرف کمایا ہے، اس شہر کا خون چوسا ہے، اس پر لگایا کچھ بھی نہیں اور اس شہرکی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کراچی ایمپریس مارکیٹ ہی نہیں صدر کی ہر گلی ہر فٹ پاتھ پر قبضہ ہے، زیب النساء اسٹرییٹ کے ساتھ ملحقہ گلیوں کو تو دکانداروں نے اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا ہے، پوری کی پوری گلیاں ان کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی پارکنگ بنی ہوئی ہیں۔

فٹ پاتھ پر ان کا اتنا قبضہ ہے کہ کسی کے گزرنے کی جگہ نہیں ہوتی بلکہ کسی کو اپنی دکان کے سامنے جو کہ سرکاری جگہ ہے کھڑا ہونے بھی نہیں دیتے اگر کہا جائے کہ بھائی میں تو فٹ پاتھ پہ کھڑا ہوں آپ کی دکان سے باہر تو ایک ساتھ بیس دکانوں والے آجاتے ہیں اور پھر اس مسافر کی جو بے عزتی کرتے ہیں خدا پناہ۔ چائے والوں نے بھی کراچی کو خوب لوٹا ہے، پانچ بائی پانچ کی ایک چھوٹی دکان کرائے پر لیتے ہیں، باقی پورا ہوٹل، کرسیاں، چائے پکانے کا انتظام فٹ پاتھ پہ ہوتا ہے۔ اتنی لوٹ مار دنیا میں کہیں بھی نہیں۔

ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انکروچمنٹ اور قبضہ ہٹانے کا آپریشن شاندار طریقے سے، پوری طاقت کے ساتھ، ایمانداری کے ساتھ اور بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ اس کا مکمل کریڈٹ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار کو جاتا ہے۔ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہونا بھی ایک سبب ہے کہ سب کو پتہ ہے کہ اس معاملے میں مرکزی حکومت نہیں سنے گی اس لئے عمران خان کی بھی مہربانی۔ میئر کراچی کا لہجہ اور اسٹینڈ بھی اس معاملے پر قابل تعریف ہے۔ کاروبار، پیٹ پوجا، مزدوری پوری دنیا میں لوگ کرتے ہیں، مگر ایسا اندھیر کہیں نہیں کہ جس جگہ دل چاہا قبضہ کر لیا، غریب ہوں بچوں کا پیٹ پالنے دو کا نعرہ لگاکر لاکھوں لوگوں کی تکلیف کا باعث بنا جاتا ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں سٹی سینٹر کے قانون باقی شہر سے جدا اور سخت ہوتے ہیں، کئی بڑے شہروں میں تو سٹی سینٹر میں پارکنگ کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ کہیں پر رش ہاور چارجز ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں سب کی لوٹ مار سٹی سینٹر پر ہوتی ہے۔ دکاندار جھاڑو دے کر اندر کا گند دکان سے باہر سامنے ہی رستے پر ڈال دیتے ہیں، دکان کا کچرا بھی دکان کے سامنے پھینک دیتے ہیں ان سے کوئی گزرنے والا شکایت کرے تو لڑنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔

لندن جیسے شہر میں دکانداروں کو دکان کا کچرا باہر پھینکنے پر اتنے بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں کہ وہ رات کو نیند میں بھی بڑبڑاتے ہیں کہ کچرا دکان سے باہر مت پھینکیں۔ کچرا پھینکنے کے لئے دکانداروں کو میونسپلٹی سے اسٹیمپ لگی کچرے کی تھیلیاں پیسوں سے خریدنی پڑتی ہیں اور ان میں کچرا ڈال کر مقررہ مقام پر، مقررہ ٹائم پر رکھا جاتا ہے جہاں سے میونسپل والے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ دکاندار کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم کچرا پیدا کرے تاکہ کم سے کم بیگ خریدے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کراچی میں وہ ٹیکس دیتا ہے اور اس کا حق ہے کہ جتنا چاہے کچرا پیدا کرے تو اس کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ٹیکس لندن میں بھی لوگ دیتے ہیں مگر دکانوں کے کچرے کا بل میونسپلٹی کے اسٹیمپ لگے کچرا بیگ خرید کر ادا کرتے ہیں۔

بہرحال، سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس آپریشن سے پہلے ایک ہی حکم سے لوئر کورٹس کی طرف سے جاری سب اسٹے آرڈر رد کرکے شاندار کام کیا۔ انتظامیہ انکروچمنٹ ختم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہی نہیں مگر اگر کوئی اچھا آفیسر چاہتا بھی تھا کہ شہر سے غیر قانونی تجاویزات ہٹائی جائیں تو ان کے آگے ایک سیاستدان رکاوٹ بنتے آئے ہیں دوسرے لوئر کورٹس کے اسٹے آرڈر جو کئی کئی سال جاری رہتے ہیں۔

چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات سے غیر قانونی تجاویزات ہٹانا مکمل طور پرصوبائی حکومت کا کام ہے مگر حکومت اس میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اسی لئے اس تحریر کے توسط سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثارسے پر زور اپیل کی جاتی ہے کہ سندھ کے دیگر شہروں کی بھی غیر قانونی تجاویزات نے بہت بری حالت کر رکھی ہے۔ بڑے شہروں میں تو پھر بھی میڈیا یا کچھ قانون کی حکمرانی نظر آتی ہے مگر چھوٹے شہروں میں کوئی پوچھنے والا نہیں، قانون توڑنے والے ہی حکمران اور قانون کے رکھوالے ہیں۔

ہر ادارے پر ان کا راج ہے، لوئر کورٹس تک ان کے اثر میں ہیں۔ سندھ کے ہر شہر کی بری حالت ہے۔ سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، خیرپور، ٹھٹھہ، بدین، دادو، شکارپور سب شہروں کی فٹ پاتھیں، گزرگاہیں، رستے کاروباری طبقے کے قبضہ میں ہیں، سندھ کے ہر شہر کی بازاریں اور مرکزی شاھی بازاریں غیر قانونی تجاویزات سے اٹی ہوئی ہیں۔ جیکب آباد، شکارپور، سکھر، کندھ کوٹ، میہڑ، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر کئی شہروں کے سٹی سینٹر کے نشان کے طور پہ انگریزوں نے گھنٹہ گھر بنائے تھے۔

ان گھنٹہ گھروں کے تو تاریخی گھڑیال بھی کرپٹ لوگوں نے اتار کر بیچ دیے مگر کم از کم اب چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثاراس سلسلے میں پورے سندھ کے اسٹے آرڈر ختم کر کے کراچی ایمپریس مارکیٹ کی طرح سندھ کے دیگر شہروں سے بھی غیر قانونی تجاویزات ختم کرا کر سندھ کے لوگوں کو بھی اپنے شہروں کی خوبصورتی دیکھنے کی مہربانی کرکے جائیں تو ہم ان کے مشکور رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).