روحی بانو اور روبینہ پروین جیسے لوگوں کا المیہ


روحی بانو اور روبینہ پروین جیسے فنکاروں کے دکھ نے نہیں ہیں مگر نجانے کیوں مجھے ہر بار اُن کے آنسو اپنے اندر گرتے ہوے محسوس ہوتے ہیں۔ فاؤنٹین ہاوٗس یا پھر گلبرگ کی سڑکوں پر اپنی بے بسی کا ماتم مناتی روحی بانو ہو یا پھر چوبرجی جیسی معروف شاہراہ پر بے یارومددگار پڑی روبینہ پروین ہو، دونوں کا تعلق معاشرے کے ایک ایسے طبقے سے ہے جو حبس زدہ معاشرے میں زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر اب اسی علامت کی آہیں اور سسکیاں شب و روز ہمیں سُنائی دیتی ہیں۔

روحی بانو کو میں نے پہلی بار فاوٗنٹین ہاوٗس میں دیکھا تھا۔ ذہنی امراض کی اس علاج گاہ میں آپ کو بہت سی دردناک کہانیاں چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔ روحی بانو کی کہانی اس لے بھی زیادہ رُلاتی ہے کہ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو ایک زمانے میں بہت سے دلوں کی دھڑکن رہی ہے۔ اداکاری کے میدان میں اُس کا طوطی بولتا تھا مگر پھر چند حادثات نے ہماری اس خوبرو اداکارہ کو عمر بھر کے لے آنسووٗں کے ایک ایسے شہر میں لا بسایا جہاں دکھ، درد اور تنہائی کے ساتھ وہ اپنی سانسوں کا سفر کاٹ رہی ہے۔

روبینہ پروین کو گو کہ روحی بانو جیسی شہرت تو حاصل نہیں ہوئی تھی مگر ایک زمانے میں وہ ادبی محفلوں کی رونق سمجھی جاتی تھی۔ ماضی کی معروف شاعرہ اور صحافی روبینہ پروین ان دنوں جس حال میں ہے وہ ہم سب کے لے لمحہ فکریہ ہے۔ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا شمار معاشرے کے حساس ترین افراد میں ہوتا ہے۔ اداکار ننھا کی خودکشی سے لے کر مُنا لاہوری کی کسمپرسی کی حالت میں موت تک ان گنت داستانیں ہمارے سامنے بکھری پڑی ہیں۔

یہ لوگ اپنے عروج کے دنوں میں بھرپور طریقے سے زندگی گُزارتے ہوے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر عروج کا زوال ہے اور جب ان کا زوال آتا ہے تو ان کے دامن میں سواے چند کھوٹے سکوں کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ فنکار اپنی مالی مشکلات کے حل کے لے ہمیشہ حکومتی امداد کے کیوں منتظر رہتے ہیں کیوں ان کا آخری وقت کسمپرسی کے عالم میں گزرتا ہے۔ پچھلے دنوں میں ایک خبر نظر سے گزری تھی کہ ماضی کے معروف اداکار ماجد جہانگیر سڑکوں پر بھیک مانگتے پھر رہے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ماجد جہانگیر نے اپنے وقت میں کتنا پیسہ برباد کیا ہے اور جب جیب میں پیسہ نہیں رہا تو لوگوں سے ہمدردی کے نام پر پیسہ بٹورنے لگے۔

میں مانتی ہوں کہ تمام فنکار ایسے نہیں ہیں اور ابھی بھی ہمارے ماضی کے بہت سے فنکار مالی مشکلات کا شکار ہیں بلکہ مجھے تو امرتا پریتم کے شوہر امروز کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ :امرتا نے زندگی میں بہت لکھا مگر اتنا لکھنے کے باوجود اس کی رائیلٹی سے صرف چاے پی جا سکتی تھی، روٹی نہیں کھا سکتے تھے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے یہ احباب کچھ بُری عادتوں کی وجہ سے بہت جلد مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا خمیازہ اُنہیں اپنی عمر کے آخری حصے میں بھگتنا پڑتا ہے جو اُن کے جانے کے بعد اُن کی اولاد کو وراثت میں ملتا ہے۔

روحی بانو کو اُس کے بیٹے کا دکھ لے ڈوبا اور روبینہ پروین اپنی بیٹی کے لے تڑپتی ہے مگر ان کی کٹی پھٹی اور مایوس زندگی کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ان کے خراب معاشی حالات بھی ہیں۔ ابھی میں یہ سطور لکھ ہی رہی تھی کہ میری نظر اُن انعامات پر پڑی جو مجھے کچھ ادبی تنظیموں کی طرف سے ملے تھے اور میرے کمرے میں مُسکراتے ہوے مجھ سے یہی کہہ رہے تھے کہ تعریف و توصیف اچھی چیز ہے مگر خالی پیٹ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔

نجانے کب تک ہمارا فنکار اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتا رہے گا۔ میں منتظر ہوں اُس دن کی جب کوئی نیوز چینل مجھے ایسی بھی کوئی رپورٹ دکھائے جس میں روحی بانو اور روبینہ پروین جیسے لوگوں کے آنسو نہیں بلکہ اُن کی مُسکراہٹ نظر آئے اور ہم بھی فخر سے کہہ سکیں کہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والا ہمارا یہ طبقہ بھی خوشحال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).