آسیہ بی بی اور یورپ


جو مولانا حضرات کہہ رہے ہیں کہ یورپ اور عیسائیوں کو خوش کرنے کے لئے آسیہ بی بی کو رہائی دی گئی، اور عیسائیت کو اپنا پیدائشی دشمن سمجھتے ہیں، اور ہمہ وقت عیسائیوں سے جنگ کے مُوڈ میں رہتے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یورپ کب سے عیسائیت کو ترک کر چکا۔ جیسے پاکستان بھارت میں نئی نسل اپنی پچھلی نسل سے فرق ہے، شاید اپنے بڑوں کی نسبت زیادہ لبرل ہے، اسی طرح یورپیوں کی نئی نسل جن کی عمریں 30 سال یا اس سے نیچے ہیں ٪ 80 لادین ہیں۔

جس کی بڑی وجہ چرچ کا فعال نہ ہونا ہے۔ نوجوان طبقہ تو درکنار ان کے بڑے بزرگ بھی لادینیت کی طرف مائل ہو چکے۔ چرچ کا سہارا زیادہ تر وہ لوگ لیتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے زندگی میں شاید مشکلات زیادہ دیکھی ہوں یا جو معاشرے میں خود کو ایڈجسٹ نہیں سمجھتے۔ بہر کیف اگر یورپ آسیہ بی بی کے معاملے میں پڑا بھی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ملکوں میں ہر طرح کی برابری رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔

صنفی برابری، مذہبی برابری، نسلی برابری، قومیتی برابری، وغیرہ۔ ان کو جب محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس برابری کو نقصان پہنچ رہا ہے تو مداخلت کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں (بالخصوص سیاسی لیول پر) اپنے پرانے مذہب عیسائیت سے ”ٹوٹ چکے محبت کے بندھن“ کی تپش سی محسوس کرتے ہوئے بھی ان کا دل چاہتا ہے کہ دنیا میں کہیں عیسائیت پر ظلم ہو رہا ہے تو مظلوم کی مدد کی جائے۔ یہ ”ٹوٹ چکے محبت کے بندھن“ والا معاملہ والدین اور اُس بچے کے درمیان تعلق جیسا ہے جو والدین کی زندگی میں تو ان کی نافرمانیاں کرتا رہا، لیکن ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان سے قریب ہونے کے راستے ڈھونڈنے لگا۔ کہیں آٹے میں نمک کے برابر یہ سوچ کر بھی مداخلت کرتے ہیں کہ مسلمان توہین رسالت ﷺ پر بڑی جلدی طیش کھاتے ہیں تو کیوں نا مسلمانوں کو ان کی دُکھتی رگ پر چھیڑا جائے، یہاں تک کہ وہ اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ اور نقصان کریں، اور آپس میں لڑیں۔

میرا بحیثیت پاکستانی مسلمان یہ مسئلہ ہے کہ ہمارے علماء حضرات کم از کم اپنی لاہور، کراچی، راولپنڈی، کی تقریروں میں ان آٹے کے نمک والوں کو پورا یورپ نہ بتائیں اور اگر ان آٹے میں نمک والوں سے دشمنی کرنا ہی ہے تو اپنے ملک میں توڑ پھوڑ اور نقصان بند کریں اور صبر، تحمل، حکمت کی پالیسی اپنائیں۔ بہتر تو یہ ہو کہ آٹے میں نمک والوں کو چھوڑ کر خطابات میں تصدیق شدہ سچ بولا کریں کہ یورپ اگر نو سالہ دورانئیے کہ کیس میں کسی موقع پر آکر پڑا بھی ہے تو برابری والی وجوہات کی بنا پر پڑا ہے۔ اس سے یہ ہوگا کہ آپ کے سامعین جو زیادہ بھیڑ بکریاں ہی ہیں، ان کو اصل سچ معلوم پڑے گا اور اپنے ملک میں بھی برابری بنانے کا شوق پیدا ہو گا۔

یہاں خصوصی طور پر یہ بھی باور کرا دوں کہ اگر روایتی علماء کی یہی روش جاری رہی تو بعید نہیں کہ آپ کی آنے والی نسلیں سیکولرازم اپنا لیں۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا آپ کا ہی کام ہے پیارے روایتی علماء حضرات۔ براہ کرم اپنے رویوں سے بھارت کی شیوسینا نہ لگیں، اسلام جیسے عالمگیری شاہکار کے ترجمان لگیں، جن کی اچھائی کی گواہیاں دنیا کے کسی بھی کونے تک پہنچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).