نواب کے پراٹھے اور وزیر کی لوٹ مار


ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ سانچ کو آنچ نہیں! آج تک آنکھیں بند کیے اس قول ِ زریں پہ ایمان لاتے رہے۔ پر اب جو حالات دیکھتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمام اقوالِ زریں ضخیم کتب میں چُن دیے گئے ہیں اور ان پر نئے سرے سے غورکیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ مثلاً اب آپ با آسانی اپنے بچوں کو سکھا سکتے ہیں ”سانچ میں ہی آنچ ہے! “، ”غرور کا سر بہت اونچا“، ”جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں پر بھی ہوتے ہیں“، ”کر برا ہو بھلا“، ”ڈوبتے کو تنکا بھی نہ دو“، ”باتوں کے بھوت لاتوں بلکہ ڈنڈوں سے ہی باز آتے ہیں“۔ یقین مانیں اِس سے اور کچھ نہیں تو کتابی لفظوں کے درد ناک معنی و حقائق کے رشتے سے ضرور آزادی نصیب ہو گی۔

روایت ہے کہ غازی الدین حیدر جو کہ پہلے شاہِ اودھ رہے، انھیں پراٹھے بہت پسند تھے۔ ان کا رکاب دار ہر روز چھ پراٹھے پکاتا اور فی پراٹھا پانچ سیر کے حساب سے گھی روز لیا کرتا۔ ایک دن وزیرِ سلطنت معتمد الدولہ آغا امیر نے شاہی رکاب دار کو بلا کر پوچھا، ارے بھئی یہ تیس سیر گھی کیا ہوتا ہے؟ کہا، حضور پراٹھے پکاتا ہوں۔ کہا میرے سامنے تو بناؤ۔ اُس نے کہا بہت خوب! جتنا گھی کھپا، کھپایا اور جو باقی بچا پھینک دیا۔

معتمد الدولہ آغا میر نے حیرت و استعجاب سے دیکھا اور کہا، پورا گھی تو خرچ نہ ہوا؟ اس نے کہا، اب یہ گھی تو بالکل تیل ہو گیا۔ اب یہ اس قابل تھوڑا ہے کہ اسے کسی اور کھانے میں لگایا جائے۔ وزیر سے کوئی جواب تو نہ بن پڑا مگر حکم دے دیا کہ آئندہ سے اسے صرف پانچ سیر گھی دیا جائے۔ فی پراٹھا ایک سیر گھی بہت ہے۔ رکاب دار نے کہا بہتر! میں اتنے میں ہی پکا دیا کروں گا۔ مگر دل میں وزیر کی روک ٹوک پہ ایسا نالاں ہوا کہ بادشاہ کو معمولی قسم کے پراٹھے بنا بھیجے۔

جب چند دن یہی حالت رہی تو بادشاہ نے شکایت کی اور بُلا بھیجا۔ حضرت نے کہا جناب! جیسے پراٹھے کہے گئے ہیں پکا دیتا ہوں۔ بادشاہ نے حقیقت پوچھی تو دل جلے رکاب دارنے سب ماجرا کہہ ڈالا۔ بادشاہ سلامت نے فوراً معتمد دولہ کو یاد فرمایا۔ انہوں نے حاضر ہوتے ہی عرض کیا:جہاں پناہ! یہ لوگ خواہ مخواہ لوٹتے ہیں۔ بادشاہ سلامت نے جب یہ سنا تواِس کے جواب میں کوئی پانچ دس تھپڑاور گھونسے وزیر محترم کو رسید کیے، خوب ٹھونکا اور کہا:

”تم نہیں لوٹتے ہو؟ تم جو ساری سلطنت اور سارا ملک لوٹتے ہو، اس کا خیال نہیں تمہیں۔ یہ جو اتنا تھوڑا سا گھی زیادہ لے لیتا ہے وہ بھی خاص میرے لیے، تمہیں وہ گوارا نہیں؟ بہر حال معتمد دولہ نے توبہ تلافی کی اور اس کے بعد کبھی اس رکاب دار پہ اعتراض نہ کیا اوروہ روز اسی طرح تیس سیر گھی لیتا رہا۔ “ (عبد الحلیم شررؔ، گذشتہ لکھنؤ ص 213 )

تو صاحبو! کہنا صرف یہ تھا کہ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو، وہاں زمانہ چاہے کہاں سے کہاں پہنچ جائے، وقت چاہے کتنی ہی اونچی اڑان اڑ لے، بادشاہ، رکاب دار اور معتمد دولہ کے کردار اپنی جگہ اٹل ہی رہتے ہیں۔ آپ چاہیں تو زمانہ بدل لیں، کردار بدل لیں، کہانی وہی رہے گی، وہیں رہے گی، بس ذرا زیادہ نکھر کر سامنے آ جائے گی۔

چند دن قبل ہم نے ریاست کی بے بسی کی وہ درد ناک مثال دیکھی جس پر بار ہا قلم اٹھایا اور لکھنے سے پیشتر رکھ ڈالا کہ بات پہ واں زبان کٹتی ہے۔ گرد، دھواں، شراروں اور ہنگاموں کے درمیان سے اٹھتے شدت پسندی کے تمام تر نعروں نے کلفت زدہ، تھکے ماندے مسافروں کا یوں احاطہ کیا جیسے گناہ گار و خطا کار یہی مخلوقِ خدا رہی ہو۔ میں سوچتی ہوں کیا عجب بے بسی سی بے بسی ہے۔ سماجی گھٹن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ امن، محبت اور احترام ہے کہ فنا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہماری اقدار و اخلاقیات کا نوحہ لکھنے کو قلم اور سنانے کو زباں گنگ محسوس ہوتی ہے۔ ہم عجیب لوگ ہیں محبتوں کی جگہ نفرتوں کی پرورش کرتے ہیں، انھیں سینچتے ہیں، نمو دیتے ہیں اور پھر وقت آنے پر انھیں سانپ کی طرح رینگنے کو چھوڑ دیتے ہیں یہ جانے اور سوچے بغیر کہ سانپ تو آستین والوں کو بھی نہیں بخشتا۔

یقین مانیے! ہمارا مقصد قطعاً اہلِ دل کی دل خراشی نہیں اور نہ ہی ہمیں اہلِ عمل سے اُن کے خوابِ غفلت کی لطافت چھیننا مقصود ہے۔ ہمیں تو محض آپ سے نئے اقوالِ زریں، محاورے، ضرب المثل اور کہاوتیں مرتب کرنے کی اجازت درکار ہے۔ جو گاہے بگاہے ہم اپنے آنے والی نسلوں کو سکھا سکیں اور بتا سکیں کہ جہاں آوے کا آوا خراب ہو وہاں لفظوں کے معنی الٹ جایا کرتے ہیں۔ عقل و دانش کی سبھی باتیں بے مول ہو جاتی ہیں اور محبت کی کمیابی دلوں کی کھیتی کو بنجر کر دیا کرتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو آئیے! اور اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے میں میرا ساتھ دیجئے کہ یہ آئینے کم اور خواب زیادہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).