واردات ہائے نیم شب


مسلسل تیسری رات ہے کہ شب کا بدن دونیم ہوتا ہے تو اِک بوجھل بے چینی کے ساتھ آنکھ کھل جاتی ہے۔ بوجھ ہٹانے کی کوشش میں اِدھر اُدھر دو چار کروٹیں اور پھر مکمل بیداری۔ تھکی ہوئی، ہانپتی، لمبے لمبے سانس لیتی بیداری۔ یوں لگتا ہے کوئی پکارتا ہے، صدا دیتا ہے کہ اٹھ چھوڑ یہ صحت و آسودہ حالی کا ٹھاٹھ اور رختِ سفر باندھ لے۔ ”چل میلے نوں چلئے“۔ وہ میلہ جو ازل سے لگا ہے، جہاں سے لوگ نکالے جاتے ہیں اور پھر لوٹا دیے جاتے ہیں۔ دونوں ہی مرتبہ مجبور و لاچار ہوتے ہیں۔

نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو فقط بدنام کیا

میں بڑی کوشش کرتا ہوں کہ پھر سے نیند کے گھاٹ اتر جاوں مگر وہ سونے نہیں دیتے۔ وہ جو نادیدہ ہوتے ہیں مگر احساس کی بصارت پر قطعی واضح، آفتابِ نیم روز کی چمک جیسے واضح۔ وہ کہتے ہیں ہم تجھے لینے کو آئے ہیں، ابھی کوئی زبردستی نہیں مگر ایک دن آئیں گے تو خالی ہاتھ نہ لوٹیں گے۔ آخر تجھے لے جانا ہے۔

میرے ارد گرد چار زندگیاں خوابیدہ ہوتی ہیں۔ وہ زندگیاں جن کا مجھے نگران و نگہبان بنایا گیا ہے، صدیوں کی گود میں پرورش پا کر بالغ ہوئے انسانی شعور نے اور الہامی احکامات نے یہ نگہبانی مجھے سونپی ہے۔ وہ میری سوچوں کا محور ہیں، میری ترجیحات کی فہرست میں سب سے اوپر اور اولیٰ۔

ان نادیدہ وجودوں کو جب میری قوتِ لامسہ محسوس کر کے سماعتوں میں ان کی پکار ڈالتی ہے تو مجھے سب بے کار لگنے لگتا ہے۔ یہ روز و شب کا دورانیہ جسے ہم زندگی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس میں روز مرہ کی جدوجہد اور بھاگ دوڑ۔ آگے اور آگے جانے کی جاں توڑ کوششیں، سازشیں۔ ہل مِن مزید کی خواہش۔ ترقی کی دھن بلکہ جنون۔ سب سمیٹ لینے کی سعی۔ یہ سب مجھے بے کار لگنے لگتا ہے۔ بودا، کھوکھلا اور بے مصرف۔ گزرے ہوئے دنوں کی ساری بھاگ دوڑ ایک کارِ فضول لگتی ہے، سراب کے پیچھے ہلکان ہونے کی مثال۔ اسباب دنیا کی محبت سے لے کر انسانوں سے کی جانے والی محبت و عداوت سب بے معنی محسوس ہونے لگتے ہیں۔

میں یہاں کیوں ہوں۔ ؟ یہ نادیدہ وجود جو مجھے پکارتے ہیں، یہ کہاں لے جانے کو آتے ہیں؟ وہ کون دیار ہے اور کون جگہ؟ کیسا دیس ہے وہ اور کیسی فضائیں؟ پتہ نہیں وہاں کی رُتیں اجنبی ہوں گی یا شاید ان سے میری پرانی آشنائی ہو اور اب مادے کے بوجھ تلے آئی میری یادداشت ان کا خاکہ فراموشکیے ہوئے ہے۔

جو بھی ہے، یہ مجھے سونے کیوں نہیں دیتے۔ جاڑوں کا استقبال کرتی یہ طویل، خاموش سنًاٹے بھری راتیں میری زندگی میں پہلی مرتبہ تو نہیں آئیں۔ ایک آدھ جاڑا اور آچکے گا تو ان کی تعداد نصف صدی ہوجائے گی۔ میں تو اپنے کمبل کی فصیل میں بڑا آسودہ اور بے فکرا سویا کرتا تھا۔ سویرے بھی خود کو کھینچ کھانچ کر نیند کے انبار تلے سے نکالا کرتا تھا۔ اب کے برس میری نیند کے بدن میں کون سی ایسی گیس بھر گئی ہے جس نے اسے ایسا ہلکا کردیا کہ میرے بستر سے اٹھ کر اس چھت سے جالگا ہے جو دن میں نیلی ہوتی ہے اور اب ٹھٹری ہوئی سیاہی میں ڈوبی ہے۔

کیا نئے دیاروں، نئی منزلوں کو سفر کا وقت قریب آ لگا ہے۔ ؟ مگر میرا وجدان تو کبھی ایسا چوکس و ہُشیار نہیں رہا کہ آنے والے واقعات کی خبر پالے۔ میرے سامنے بیٹھا شخص جھوٹ بول رہا ہوتا ہے، منافقت میں گندھی باتیں کرتا ہے اور میں اس کو نہیں جان پاتا۔ پھر سب کچھ یک سر بدل دینے والے اس قدر اہم ترین سفر کی پیشگی خبر بھلا مجھ ایسے سست الحواس کو کیسے مل سکتی ہے۔ تو پھر یہ سب کیا ہے؟ کیوں میرے شبینہ خواب روٹھ گئے ہیں؟

پرسوں رات یہ احساس شدید ترین تھا۔ میں نے نیٹ پر موت کو تلاش کیا، ان منزلوں کو کھوجنے پر لگا رہا جن کی طرف یہ سفر ہوا کرتا ہے۔ اتنی متضاد آرا، اس قدر مختلف نکتہ ہائے نظر۔ ! مگر ایک بات پر اکثریت متفق نظر آئی کہ زندگی ختم نہیں ہوتی۔ آگے ایک دنیا اور ہے، ایک نئی تماشا گاہ جس کا تماشا ہم انسان ہیں، پتہ نہیں ناظر کون ہیں اور کن کی ضیافتِ طبع کو یہ تماشا در تماشا برپا کیا جاتا ہے۔ ہمیں زندگی کی اذیتوں میں مبتلا کر کے پتہ نہیں کن کو محظوظ کیا جارہا ہے۔

ایک روحانی دانش ور کہہ رہا تھا کہ اگر تم زندگی کی فصیل توڑ کر نکلتے ہو یعنی کسی حادثہ کی صورت اچانک موت سے معانقہ کرتے ہو تو لامحدود مدت کے لئے بھٹکتے رہو گے لیکن اگر اپنی طبعی عمر کو بوسیدہ کر کے حصار جاں سے نکلتے ہو تو اگلے اڑتالیس گھنٹے میں نئی زندگی میں ڈھال دیے جاؤ گے۔ کیا واہیات منطق ہے۔ جہاں جانا ہے اس جہان میں وقت کا وجود ہی نہیں پھر اڑتالیس گھنٹے چہ معنی دارد؟

بہرحال کئی گھنٹے نیٹ پر بھٹکنے کے باوصف کچھ حاصل نہ ہوا الٹا کنفیوژن سِوا ہوگئی۔ ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ان بے شکل نادیدہ وجودوں کے لمس سے خیال ہٹا رہا۔

کل رات میں نے ان کے ڈر سے نیند کی گولی کھا لی تھی۔ آج نہیں کھا سکا تو پھر ایک بجنے میں کچھ منٹ تھے جب بے صَوت صداوں نے اٹھا دیا۔ وہی احساس اور وہی خیال۔ بوجھل بے چینی اور بھاری احساسِ زیاں۔ آج میں نے تلاش کے بجائے لکھنا شروع کردیا۔ میرے ساتھ رہنے والی چاروں زندگیاں عالم خواب کی آسودگی میں ہیں، کسی سے بات نہیں کرسکتا تو سوچا پڑھنے والوں سے مخاطب ہوا جائے۔ موبائل کے نوٹ پیڈ پر اپنی محسوسات اس خیال کے ساتھ رقم کرنے پر بھی کتھارسس ہوجاتا ہے کہ یہ جملے ہزاروں لوگوں تک پہنچیں گے۔ آپ سب میرے اپنے ہی تو ہیں جن سے حال بانٹ کر میں ہلکا پھلکا ہوجاتا ہوں۔

نیم شب میں جو تحریر شروع کی تھی، اس کے اختتام کو پہنچتے پہنچتے شب اپنا تین چوتھائی سفر تمام کرچکی ہے۔ میں اب خاصا بہتر محسوس کررہا ہوں۔ بوجھل پن بھی تقریبا ختم ہے اور وہ پکارنے والے بھی شاید جاچکے۔

اب ان آخری سطور میں مجھے آپ سے کہنا یہ ہے کہ اجل کی صدائیں دینے والے احساسات کو یاد ضرور رکھیں کہ ایک دن جانا ہے۔ یہ یادداشت آپ کے کردار و افعال کو متوازن رکھتی ہے مگر ان کو حواس پر سوار نہ ہونے دیں۔ میری طرح کی کیفیت میں اگر یہ آپ پر سواری کی کوشش کریں تو خیال کو بٹانے کا چارہ کریں جیسے میں نے آپ سے مخاطب ہوکر کیا۔ اگر اجل کا خیال سوار ہوگیا تو جانئے جیتے جی آپ موت کی گود میں جا بیٹھے۔ نہ ہی اس کھوج میں وقت ضائع کیا جائے کہ وہ کون دیار ہے اور کون جگہ جہاں جانا ہے۔ اس سے کنفیوژن بڑھتی ہے، حتمی جواب کوئی نہیں ملتا۔ جب جائیں گے تو دیکھ لیں گے کہ وہ کیسا دیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).