فواد چودھری وزیر اطلاعات ہیں یا وزیرِ فساد ہیں


پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے قومی اسیمبلی میں اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔ پورے ملک نے نظارہ کیا کہ کس طرح ڈاکووں، قاتلوں، چپڑاسیوں، نیب زدہ کرپٹ سیاستدانوں، ضمیر فروش آزاد ارکان نے مل کر عمران خان صاحب کی حکومت بنانے میں کردار ادا کیا۔ عمران خان فرماتے تھے کہ اگر انتخابات میں واضح اکثریت نہیں ملی تو اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن اس کے برعکس وہ کھلے عام آزاد اراکین کی خرید و فروخت میں سرگرم رہے۔ جن کے ساتھ بیٹھنے کو وہ منافقت اور جرم سمجھتے تھے انہیں کے پاؤں پکڑ کر اپنی حکومت تشکیل دی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر فرشتوں پہ مشتمل مختصر کابینہ تشکیل دیں گے جس کے کسی ایک بھی رکن پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔ قوم نے دیکھا نیب زدہ، منی لانڈرنگ، قتل و غارتگری میں ملوث لوگ، قومی بینکوں کے نادھندہ، ، ماضی میں پی ٹی آئی قیادت وہ کارکنوں کو غلیظ القابات سے نوازنے والے خان صاحب کی کابینہ کا حصہ بن گئے۔

ان میں ہی ایک فواد چوہدری صاحب ہیں جو وزیر اطلاعات بنا دیئے گئے۔ فواد چودہری جو ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے دست راست تھے ان کے ہر جرم کی بڑے شد و مد سے تقلید کرتے رہے، ان کی آواز بن کے مخالفین پر برستے رہے ان کے ہر غیر آئینی اقدام کو جائز قرار دینے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے وفا نبھاتے رھے۔ پھر پیپلزپارٹی کے دور میں اس آصف زرداری کی قدم بوسی کرتے رہے جن کے لیئے کچھ دن پہلے فرما چکے ہیں کہ شھید بھٹو کی پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی میں ایسے ہی فرق ہے جیسے زمین اور آسمان میں۔ فواد چودہری پیپلز پارٹی پر برستے ہوئے شاید یہ بھول گئے تھے کہ وہ آصف علی زرداری والی پیپلزپارٹی میں ان کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ترجمان بن کے پارٹی مخالفین کو شدید ہدف تنقید بناتے رہے۔ وہ اپنے ہر ٹاک شو میں آصف علی زرداری کی گیارہ سالہ بےگناہ اسیری کو دلائل سے ثابت کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ وہ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی ترجمان بن کر ان کے گیت گاتے رہے، اپنے ہر ٹاک شو میں پی ٹی آئی قیادت بشمول عمران خان صاحب اور انکے کارکنوں کو انتہائی رکیک قسم کے القابات سے نوازتے اور شدید لعن طعن کرتے رہے تھے۔ اس دوران تحریک انصاف پر تنقید کرتے وقت ان کی شعلہ بیاں زبان آگ اگلتی نظر آتی تھی۔

آج وہی فواد چودہری صاحب جب اسی تحریک انصاف کی سیاہ کاریوں کو عوامی بھلائی کا روپ دینے کی کوششوں میں اپنے سابقہ رفیقوں پر گرجتے برستے ہیں تو انہیں تو شاید اپنے طرز عمل پر شرمندگی نہیں ہوتی۔ مگر سیاست میں اصولوں، اور روایتوں کے قائل لوگ نظریں جھکاتے نظر آتے ہیں۔ فواد چودہری صاحب تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کی محبت میں اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ ان کی محبت تحریک انصاف کو بند گلی میں دہکیلتی جا رہی ہے۔ وہ اب تک تحریک انصاف کی حکومت کے ان 80 دنوں میں مفاہمت کے بجائے مسلسل آگ بھڑکانے اور اپنی ہی حکومت کے خلاف گڑھا کھودنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ آج بہی کنٹینر پہ کھڑے نظر آتے ہیں جہاں سے وہ اپنے مخالفین پر گولا باری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک اس بات کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اس کے تعلقات اپوزیشن جماعتوں سے کس نوعیت کے ہونے چاہئیں۔ ان کی طرز حکمرانی کے کسی رخ سے یہ نہیں محسوس ہوتا کہ تحریک انصاف پاکستان کی حکمران جماعت ہے۔ اقتدار میں آنے والی کوئی بھی نئی حکومت چاہے وہ کتنی ہی بھاری اکثریت سے منتخب ہوکے کیوں نہ اقتدار میں آئی ہو، کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ اقتدار میں آتے ہی حزبِ اختلاف سے محاذ آرائی شروع کی جائے۔ سیاسی دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مخالفت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے۔

مگر یہاں معاملا دوسرا ہے جب ملک کا وزیراعظم ہی ابھی تک کنٹینر پہ چڑھا ہوا ہو تو اس کے ساتھیوں کا بیانیہ اپنے وزیر اعظم سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔ فواد چودہری صاحب ملک کے وزیرِ اطلاعات ہیں حکومت کے ترجمان ہیں انہیں بجائے جلتی پہ تیل ڈالنے کے اس پہ پانی ڈالنے کا کام کرنا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے فواد چودہری صاحب نے حکومت کے پہلے 80 دنوں میں فساد چودہری کے نام سے شہرت کمانا شروع کردی ہے۔ پچھلے دنوں قومی اسیمبلی میں قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف، پیپلزپارٹی پارلیامینٹیرین کے صدر آصف علی زرداری، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مفاہمانہ تقریروں اور حکومت کو قومی معاملات پہ تعاون کی پیش کش کا ایوان میں موجود پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں اور وزراء نے زبردست خیرمقدم کیا۔

مفاھمت کی جانب بڑھنے والی پیشرفت کو وزیر اطلاعات فواد چودہری کی شعلا بیانی، اپوزیشن جماعتوں اور انکے رھنماؤں کے خلاف انتہائی سخت زبان نے ایک بار پھر شدید خطرات سے دوچار کردیا ھے۔ ایسا لگتا ھے جیسے فواد چودہری چاہتےہی نہیں ہیں کہ خان صاحب آرام و سکون سے عوام سے کیئے گئے دعووں اور وعدوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔ انہیں شاید یہ گورا ہی نہیں ہے کہ پی ٹی آئی اپنی آئینی مدت اقتدار مکمل کر سکے۔ ان کے غیرسیاسی اور غیر ذمیدارانہ طرز عمل سے لگتا ھے کہ وہ نہیں چاہتےکہ انتخابات کے دوران پی ٹی آئی جس منشور کے تحت عوام کا ووٹ لیکر اقتدار میں آئی ہے وہ اس منشور پر پورا اتر سکے، فواد چودہری کی شعلہ بیانیاں اگر اسی طرح جاری رہیں تو خان صاحب کی حکومت جو ابھی تک اپنی ترجیحات اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈہ کے اھداف مقرر نہیں کرسکی ہے اورشدید معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے، مزید مشکلات سے دوچار ہو جائے گی۔ اس لیئے وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے سینئر اکابرین کو فواد چودہری صاحب کے رویے میں تبدیلی لانی پڑے گی اور انہیں فساد چودہری بننے سے روکنا پڑے گا ورنہ شاید تحریک انصاف کا حشر ماضی میں قصۂ پارینہ بن جانے والی کسی سیاسی جماعت جیسا ھوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).