جنس بطور رشوت


جنس بطور رشوت(Quid pro quo) دنیا بھر میں ہونے والی ایک قبیح چیز ہے۔ بیشتر خواتین نے اس کی شکایت کی ہے کہ دفاتر میں ان سے بےتکلفی کی امید رکھنا دراصل رشوت طلب کرنے جیسا ہے۔
ہمارے ہاں تو اگر کوئی خاتون ترقی کر جائے تو ہماری پست ذہنیت کے مطابق یہی فرض کیا جاتا ہے کہ موصوفہ نے رشوت کے طور پر خود کو پیش کیا ہو گا۔
کام کی جگہ پر ہراسانی، یہ ایک عام بات ہے۔ عام اس کے وقوع پذیر ہونے کے حوالے سے نہ کہ اس کی سنگینی کی بنیاد پر۔ ایک رپورٹ کے مطابق کام کرنے والی سو فیصد خواتین ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا کام ہو،کام والی ماسی سے لے کر کارپوریٹ بزنس کی ایگزیکٹو تک کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں۔
تعلیمی اداروں میں طالبات یا معلمات کے ساتھ ہراسانی ہونا بھی منظرعام پر آتا رہتا ہے۔ یقین مانیں،ایسا ہونا بعید از امکان نہیں ہے اور نہ ایسا ہے کہ تمام اساتذہ ایسے گھناؤنے کردار کے مالک ہیں۔ ہم نے آج کے دور میں بھی بہترین کردار اور صفات کے مالک معلم بھی دیکھے ہیں اور تمیز سے عاری اعلیٰ تعلیم یافتہ جاہل بھی۔ ہم کئی ایسی کلاس فیلوز کو جانتے ہیں جو وقت بےوقت مختلف اساتذہ کے پاس چکر لگایا کرتی تھیں اور ان سے بےتکلفی کی بھرپور کوشش کیا کرتی تھیں۔ یہ عمل قابل ستائش نہیں تھا اور اس کو قریب قریب سبھی مردوزن نے ناپسند کیا تھا۔
کچھ سال قبل ایک دوست جو بینک منیجر ہیں،ان کی کال آ گئی۔ میں دفتر میں تھا اور میرا دفتر شہر سے کوسوں دور ایک جنگل میں تھا،وہیں پر میری رہائش تھی۔
خیر، ان صاحب نے مطلع کیا کہ وہ کچھ ہی دیر میں میرے پاس پہنچیں گے اور چائے میری طرف ہو گی۔ میں نے چائے کے ساتھ کچھ اہتمام کیا اور ان کا انتظار کرنے لگے۔ وہ حسب اطلاع کچھ ہی دیر میں پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں، جو اپنی وضع قطع سے سٹوڈنٹ یا تازہ گریجویٹ دکھائی دیتی تھیں۔ ان کے ساتھ کسی خاتون کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ میں نے ان کے بینک میں کئی خواتین اور ینگ انٹرنیز کو دیکھا تھا ۔ مجھے لگا کہ یہ بھی ایسی ہی کوئی خاتون ہو ں گی۔
خیر،رسمی بات چیت کے بعد انھوں نے بتایا کہ وہ کسی کام سے اپنے شہر سے میرے قریبی شہر آئے تو سوچا ملاقات بھی ہو جائے اور کچھ کمر بھی سیدھی کر لی جائے۔
چائے اور لوازمات پر بھی ان کا فوکس کم تھا،انھوں نے خاتون سے کہا کہ آپ کچھ دیر ریسٹ کر لیں،واش روم بھی استعمال کرنا چاہیں تو اندر روم میں ہے۔ خاتون اپنا پرس اٹھا کر کمرے میں چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد کچھ دیر بعد انھوں نے مجھ سے بھی اجازت چاہی کہ میں بھی ذرا واش روم استعمال کر لوں اور کچھ تھک گیا ہوں ڈرائیونگ کر کے، ذرا سا نیم دراز ہو لوں۔ میں دوبارہ دفتر جا سکتا ہوں۔
وہ بھی کمرے میں چلے گئے اور میں دفتر آ گیا۔ ایک گھنٹے بعد وہ جاتے ہوئے ملے اور عجلت میں چلے گئے۔
بطور مرد میں بھی سمجھ چکا تھا کہ ان کا یہ دورہ مجھ سے ملنے کی خاطر نہیں تھا اور نہ وہ اتفاقی طور اس طرف آ نکلے ہوں گے۔ انھوں نے دانستہ اپنے شہر سے میرے پاس آنے کے لیے نوے کلومیٹر کا سفر کیا تھا۔ انھیں دراصل خلوت کی ضرورت تھی یا عام الفاظ میں جگہ درکار تھی۔ اپنے شہر کے کسی ہوٹل کا رخ کرنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ بنک منیجر اچھی خاصی جان پہچانی ہستی ہوتا ہے یا یہ بھی عین ممکن ہو کہ اس لڑکی کا تعلق بھی اسی شہر سے ہو۔
مردوں میں ایک ان کہاخاموش معاہدہ ہوتا ہے۔ میں نے اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کی یہاں تک کہ خود ان سے بھی نہیں۔
کچھ مہینوں بعد ایک عید کے موقع پہ ان کے ہاں جانا ہوا،نشست طویل ہوئی اور تنہائی میسر آئی۔ میں نے سرسری سا ذکر کیا جس میں ہلکا سا گلہ بھی تھا کہ آپ ایک خاتون کو میرے پاس لے آئے،کم ازکم آپ کو مجھ سے پہلے پوچھ لینا چاہیے تھا۔
میری بات کے جواب میں وہ خاموش ہو گئے اور دکھی لہجے میں اپنی روداد سنائی۔
کچھ عرصہ قبل ان کے بینک میں کچھ اسامیاں خالی تھیں، جن کے لیے کچھ انٹرویوز ہوئے۔ ایسے ہی ایک امیدوار کا انٹرویو ہوا جو مناسب تو تھا مگر اس سے بہتر اہلیت والے بھی موجود تھے۔ شاید اس بات کا اندازہ اسے بھی تھا۔
انٹرویو کے دو تین دن بعد وہ نوجوان انھیں بینک کے باہر ملا،اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی،جسے اس نے اپنی منگیتر کہہ کر متعارف کروایا۔ انھوں نے سرسری سا لڑکی کو دیکھا اور روانہ ہو گئے۔ اگلے ہی وہ لڑکی خود ان کے پاس پہنچ گئی اور آکاؤنٹ کھلوانے کے متعلق معلومات لینے لگی۔ اس نے اسی ملاقات میں ان کا نمبر لے لیا۔
قصہ مختصر ،لڑکی نے مسیجز پر بات کرنا شروع کر دی اور ان کی وجاہت سے متاثر ہونے کا اظہار کیا۔ چالیس سالہ شادی شدہ بال بچے دار مرد کو جب نصف عمر کی لڑکی اس طرح گھیرے تو اس کی عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے،ان کی بھی گھاس کے ساتھ ساتھ نجانے کیا کیا چرنے چلی گئی۔ ان کے بقول لڑکی نے خود ہی تکلف کی دیوار کو ایسے ڈھایا کہ وہ خود بھی حیران رہ گئے۔ جن موضوعات پر وہ اپنی شریک حیات سے بات نہیں کر پائے تھے،وہ اس لڑکی نے خود ہی چھیڑ دیئے۔ وہ وارفتگی ظاہر کی جو ان کی پندرہ سالہ ازدواجی رفاقت میں بیگم نے بھی نہ کی تھی۔ پندرہ دنوں کے تعلق کے بعد پہلی ملاقات طے پائی (جو آخری بھی ثابت ہوئی۔ )جس میں تمام اخلاقی اقدار پامال ہو گئیں۔ ملاقات سے قبل ہی یہ طے تھا کہ ایسا ہوگا اور لڑکی نے پوری رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ ملاقات کے فوری بعد ایک تبدیلی ہوئی،ایک جوان لڑکی کی قربت پا کر وہ کسی نشے میں مبتلا ہو گئے اور لڑکی پیچھے ہٹ گئی۔
پہلے وہ ان پر فریفتہ تھی تو اب یہ اس پہ دل و جان سے مرمٹے۔ اسے حاصل کرنے کی خاطر وہ اس سے نکاح تک کرنے کو تیار تھے،ان کی ذہنی حالت یہ تھی کہ وہ باقاعدہ اس کی گھنٹوں منتیں کرتے کہ ایک بار مل لو یا بات کر لو یا میسج کا جواب دے دو۔
لڑکی نے ہٹ دھرمی دکھائی اور کچھ شرائط رکھیں جن میں سرفہرست اس کے منگیتر کو نوکری دلوانا تھا۔
انھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا مگر اسے سلیکٹ نہ کروا سکے کیونکہ معاملہ ان کے ہاتھوں میں نہیں رہا تھا۔
ادھر وہ اسامی کسی دوسرے کو ملی،ادھر لڑکی سےجو بچا کچا رابطہ تھا،وہ بھی سرے سے منقطع ہو گیا۔
ایک مہینے میں انھوں نے بہترین رومانوی ماحول اور خوابناک جنسی آسودگی سے لے کرشدید ترین ذہنی دباؤ جیسے تمام حالات کا سامنا کیا۔ وہ بھی سمجھتے تھے اور اب بھی سمجھتے ہیں کہ جنس کو بطور رشوت استعمال کیا گیا تھا۔ مگر اس لڑکی کے کسی بھی عمل سے یہ شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ ایسا وہ کسی دباؤ یا مجبوری میں کر رہی ہے۔ وہ ایک اچھی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی اور ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق تھا۔ اس کام کے لیے مجبور ہونا بعید از امکان ہے۔
وہ اپنی ازدواجی زندگی سے ناخوش ہیں،ان کا کہنا ہے کہ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ میری زندگی کس قدر بےرنگ اور بورنگ ہے۔ اس کے ساتھ اس لمحاتی تعلق نے بھی مجھے کچھ ایسا مدہوش کیا کہ ابھی تک ہوش نہیں آ رہا۔ میں اسے محبت تو شاید نہیں کہہ سکتا مگر اس کی کمی کو میں کسی طرح بھی بھلا نہیں پا رہا۔ میں نے ہر کوشش کر لی، اس سے رابطہ کرنے کی اور مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔ اس کے بتائے گھر اور یونیورسٹی تک کے درجنوں چکر کاٹ لیے ،مگر وہ نہیں ملی۔
جب سے یہ ہوا ہے نہ کام میں دھیان ہے اور نہ گھر میں کوئی دلچسپی باقی رہی ہے۔ بیوی اچانک ہی کم صورت اور بڈھی لگنے لگی ہے۔ بچوں کو دیکھ دیکھ کر غصہ آتا ہے۔ بیٹیوں کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ بھی کسی بری صحبت کا شکار نہ ہوں۔ ان سب کے باوجود ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب اس کی باتوں،اس کی ہنسی،اس کی کھلکھلاہٹ اور شوخی کو یاد نہ کروں۔
ان کی یہ حالت دیکھ کر میں نے لاحول پڑھی اور دل ہی دل ایک مصرعہ پڑھا کہ نہیں چھٹتی یہ ظالم منہ کو لگی ہوئی۔
اس واقعے سے سب سے پہلا سوال یہ میرے ذہن میں آیا کہ ہم کس اخلاقی پستی کی جانب جا رہے ہیں۔ نوکری کی خاطر عزت کو نیلام کرنا یا غیرت کا سودا کرنا کہاں کی روایت ہے؟ایک مرد کا اپنی منگیتر کو اس طرح استعمال کرنا، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ مان لیا کہ وہ منگیتر نہیں صرف گرل فرینڈ تو بھی یہ کیونکر ممکن ہے؟
اسی طرح کسی پڑھی لکھی اچھے گھرانے کی لڑکی کا اپنی عزت کو صرف ایک نوکری کی خاطر تیاگ دینا،کیا ایک نارمل بات ہے؟
ایک عام زندگی جینے والے مرد جس کو یہ امید ہی نہیں تھی کہ اسے کوئی نصف عمر کی عورت میسر آ سکتی ہے،اس کی زندگی یکسر تبدیل ہو گئی ۔ اس کی ازدواجی زندگی تو متاثر ہوئی سو ہوئی،اس کے اخلاقی زوال کا بھی آغاز ہو گیا۔ اس کا عورتوں کو دیکھنے کا نظریہ بھی تبدیل ہوا۔ ساتھ میں کام کرنے والے افراد اور خواتین کے ساتھ اس کا رویہ جو پہلے مشفق باس کا ہوشاید، اب حریص مرد کا ہو گیا ہوگا۔
بیس بائیس سال کی لڑکیوں کو پہلے شجرممنوع سمجھتا تھا تو اب انھیں دائرہ اختیار میں سمجھتا ہو گا۔
کیا اب اس بینک منیجر سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال ایمانداری سے کرے گا؟ کیا اب وہ خود کسی سے رشوت کا طلبگار نہیں ہو گا؟ کیااب وہ کسی کو بلیک میل نہیں کرے گا؟ کیا اس کے ساتھ کام کرنے والی خواتین محفوظ ہوں گی؟کیا یہ عین ممکن نہیں ہے کہ وہ نئی اسامیوں پر بھرتی کا طریقہ ہی جنس کو قرار دے دے؟ اگر اسامی کے لیے کسی خاتون نے اپلائی کیا ہو تو اس کے لیے کیا یہ کسی عذاب سے کم ہو گا کہ سالوں کی محنت سے کمائی تعلیمی قابلیت ایک طرف اور منتخب ہونے کا مردانہ پیمانہ ایک طرف؟
میں ان صاحب کو قصوروار ٹھہراتا ہوں، اپنی شریک حیات سے بےوفائی کا،اخلاقی اقدار کی پامالی کا ۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں ایسے لوگوں کو بھی گناہ گار سمجھتا ہوں ،جو کسی کو ایسی ترغیب دلائیں اور ایسے قبیح راستے دکھائیں۔
ایک شخص کی لگائی آگ سے نجانے کتنی لڑکیاں جھلس سکتی ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے،میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).