لاف کاف بکنے کو فنون لطیفہ میں شامل کر لیں!


سعادت حسن منٹو کو اردو افسانہ نگاری کا امام مانا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو افسانے کو موضوعات اور اسالیب کے لحاظ سے بے مثال رنگا رنگی اور تنوع عطا کیا ہے۔ مذہبی ٹھیکیدار اور ثنا خوان تقدیس مشرق انہیں بیمار ذہنیت کا نمائیندہ اور فحش نگاری کا بدزبان و بدتہذیب ترجمان خیال کرتے ہیں۔ فحش گوئی کے حوالے سے ان پر عدالت میں مقدمات بھی چلے جن کا دفاع انہوں نے بڑی پامردی اور حقیقت پسندانہ انداز سے کیا۔ منٹو ہمیں اس طرح یاد آئے کہ ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ میں نے فحش گوئی کو باقاعدہ ایک آرٹ (فن) بنا دیا ہے۔

اس پر ہمیں اپنے علامہ خادم رضوی یاد آئے جنہوں نے فی زمانہ گالم گلوچ، لاف زنی، سب و شتم، بدزبانی اور دشنام طرازی کو صیحیح معنوں میں آرٹ بنا دیا ہے۔ جس طرح معاشرے میں ان کی نت نئی گالیوں کی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی زبان سے نکلی ہوئی گالیوں کو شہرت عام اور بقائے دوام مل رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ بات بلا خوف و خطر کہی جا سکتی ہے کہ وہ دہلی، لکھنؤ، ترقی پسند و جمالیاتی دبستان کے بعد ایک نئے دبستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ وہ سب و شتم میں بہت بے باک، رواں، برجستہ، بے ساختہ اور بھرپور ہیں۔ اس حوالے سے فصاحت و بلاغت، غلاضت و خباثت اور ضلالت و رذالت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دھرنے کے دوران میں ”رقیب“ گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوابلکہ ادھر سے تو بتکرار یہ فرمائش ہوتی تھی کہ

بوسہ نہیں نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم گر دہاں نہیں

ہمیں تو ذاتی طور پر علامہ صاحب کی طاقت گفتار اور زبان طعن بار پر رشک آتا ہے۔ اس قدر صحت مند، جدت و ندرت کی حامل اور فصیح و بلیغ گالیاں اور کون دے سکتا ہے؟ بجا طور پر انہیں اس حوالے سے لسان العصر ثانی کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے ایک دشنام آشنا دوست کا مؤقف ہے کہ بندہ بے شک گالیاں دے نہ مگر اس ہنر میں طاق ضرور ہو۔ کیا بعید ہے کہ آج کے دور کے کچھ لوگ اپنے بچوں کو گالیاں سکھانے کے لیے علامہ صاحب کے حجرے میں بھیجنا شروع کر دیں۔

آخر ہمارے پیشروؤں نے اپنی اولاد کی تہذیب کی آبیاری کے لیے طواف کے کوٹھے کا انتخاب بھی تو کیا تھا۔ جس طرح علامہ کی ”حلال“ گالیاں مشہور ہو رہی ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں کے منہ پھٹ، دریدہ دہن اور طعنہ باز حضرات علامہ کی زندگی ہی میں ان کے اس نادر فن پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ کر انہیں خراج تحسین پیش کریں گے۔

ایک دن اپنے دوست کو فتح کے نشے سے سرشار دیکھ کر وجہ دریافت کی تو کہنے لگے کہ دو دن قبل پڑوسی نے گالم گلوچ میں بری طرح زچ کیا تھا، آج علامہ صاحب کا گالی نامہ گوگل پر دیکھ کر اور مشق بہم پہنچاکر معرکہ آرا ہوا تو پہلے ہی ہلے میں وہ بے نقط سنائیں کہ پڑوسی کی کم از کم سات گذشتہ اور اتنی ہی تعداد میں آنے والی نسلیں برہنہ ہو کر سامنے آ گئیں۔ ہم نے دل ہی دل میں علامہ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور فاتحانہ گھر کی طرف لوٹے۔

گالیاں دینے والوں کی تین بڑی قسمیں ہیں :کچھ لوگ یہ کام شوقیہ کرتے ہیں۔ کچھ ضرورت کے مطابق یہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں جب کہ زیادہ تر عادت سے مجبور ہوکر گالی دیتے ہیں۔ گالیوں کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اپنی کسی غلطی یا جرم پر خود کو گالیاں دے کر مقابل کے غیض و غضب سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ علامہ صاحب ہمیں اس لیے بھی پسند ہیں کہ وہ گالیوں کے انتخاب میں حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں۔

جوان کو بیوی کی، پیر کو بیٹی کی اور بچے کو منہ بھر کے ماں کی گالی دیتے ہیں تاکہ حسب مراتب سب کی غیرت و حمیت کے جذبات کو بیدار کیا جا سکے۔ شاید علامہ ہی کے خاندان کے کسی بزرگ کی مرگ ناگہانی کے بارے میں کسی نے یوں منظر کشی کی تھی کہ ”بڑے ہی نیک، متقی اور انسان دوست بزرگ تھے۔ کھانا کھا کر حقے کی نے سنبھالی، چار پانچ ہم جلیس بیمار پرسی کو پاس بیٹھے تھے۔ منہ بھر کے ایک کو موٹی سی گالی دی۔ دوسرے کی ماں بہن ایک کی، ابھی تیسری گالی منہ میں ہی تھی کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی“۔

علامہ خادم رضوی کے اس فن میں مہارت تامہ اس طرح بھی مسلم ہے کہ ان کی گالی نے ”گولی“ والوں کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ ان کے اس طرز بیان پر اعتراض کرنے والے بے ذوق لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ وہ گالی نہ دینے کے جس قدر مرضی شرعی اور اخلاقی عذر بیان کریں، لاکھ توجیہات دیں مگر ہم اس حوالے سے بالکل یکسو ہیں کہ علامہ یہ ہتھیار دین کی سربلندی اور ملک و قوم کے وقار کی خاطر انجام دے رہے ہیں۔ ہم تو ان کے اس فن کے دل سے قدر دان ہیں۔ مذہب و ملت کے ایسے پاسبان کہاں ملتے ہیں۔ ہم ارباب بست و کشاد سے یہ التماس کریں گے کہ وہ لام کاف بکنے کو باقاعدہ فنون لطیفہ میں شامل کریں۔ اس کے لیے ایک مخصوص محکمہ قائم کر کے علامہ کو اس کا تاحیات سربراہ مقرر کریں اورعلامہ سے یہ عرض کریں گے کہ

گالیاں آپ شوق سے دیجیے
رفع کیجے ملال بوسے کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).