گڈ وکیل، بیڈ وکیل


دیکھیں حضرات گرامی جیسے اس ملک اور اس کے باسیوں نے طالبان میں تفریق کی اور انھیں دو دھڑوں میں تقسیم کیا، گڈ طالبان اور بیڈ طالبان والا ٹوپی ڈرامہ رچایا تو اسی طرح مہربانی فرما کے ہم وکلاء میں بھی تھوڑی تمیز کریں۔ ہمیں بھی آئندہ سے گڈ لائیرز اور بیڈ لائیرز کے نام سے لکھا اور پکارا جائے۔ یہ وکلاء گردی والا نعرہ مستانہ بند کریں۔ ہم بھی وکیل ہیں۔ ہمارے بھی جذبات ہیں۔ اس معاشرے کی تشکیل، نہیں، بلکہ اس ملک کے قیام میں ہمارا بھی ٹھیک ٹھاک حصہ ہے۔ ہمیں بھی جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا حضرت خادم رضوی اور اس کے پیروکاروں کو ہے۔ جتنا تحریک انصاف اور اس کے کارکنوں یا پھر ایم کیو ایم اور اس کے بھائیوں کو یا پھر پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے جیالوں یا پھر مسلم لیگ (ن) اور اس کے پٹواریوں کو یا پھر دی ایچ اے اور محکمہ زراعت والوں کو ہے۔

کیا ہوگیا اگر ہم نے ایک ڈپٹی کمشنر کو اس کی کرسی سے اٹھا کر ایک غیر معمولی اجلاس کو ختم کروا دیا۔ اب بندہ ان کمشنر صاحب سے پوچھے کہ انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ باہر وکلاء صاحبان ان کے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور یہ بھائی صاحب آرام سے اپنے کمرے کا ہیٹر آن کر کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس احتجاج سے ڈپٹی کمشنر صاحب کو کیا فائدہ؟

مثال کے طور پہ اگر فیصل آباد میں عدالت عالیہ کا بنچ منظور ہوجاتا ہے تو ڈپٹی کمشنر صاحب کو کسی مقدمہ کے سلسلہ میں لاہور تو نہیں جانا پڑے گا۔ خواہ مخواہ سارا دن ضائع ہوجاتا ہے لاہور کے چکر میں۔ آرام سکون سے بابو جی صبح منہ ہاتھ دھو کے ادھر فیصل آباد میں ہی عدالت عالیہ میں پیش ہو کے فارغ ہو لیے۔

ڈپٹی کمشنر صاحب کو بھی چھوڑیے وکلاء اپنے مقدموں، سائلوں اور رزق کی پرواہ کیے بغیر یہ احتجاج انھی سائلین کے لیے کر رہے ہیں جن کے ساتھ ریاست کا وعدہ ہے کہ ان کو انصاف ان کی دہلیز پہ پہنچایا جائے گا۔ اب بھائی یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ فیصل آباد کی عوام کی دہلیز لاہور سے شروع ہوتی ہے؟

کون سی قیامت صغری برپا ہوگئی جو وکلاء نے تھوڑی بہت توڑ پھوڑ کر لی۔ زیادہ سے زیادہ کتنا نقصان کر لیا ہونا ہے۔ عدالت عالیہ کا بنچ منظور کروانے کے چکر میں بیچارے وکلاء نے آ جا کے اپنے ہی وکیل بھائیوں کے لکڑی کے بنچ اور کرسیاں توڑی ہیں۔ سرکار کا تو ایک روپے کا نقصان نہیں کیا اور نہ ہی سرکار ہمیں کوئی تنخواہ دیتی ہے جس کا ازالہ ہم سے مانگا جائے۔

صبح سے لے کر رات کے 10 بج چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ یا تو کوئی دوست ہر اس پوسٹ میں ٹیگ کر رہا ہے جس میں وکلاء گردی کا ذکر ہے تو کوئی وٹس ایپ پہ ڈپٹی کمشنر صاحب کو زدو کوب کرنے کی ویڈیو ثواب سمجھ کے شئیر کر رہا ہے اور کوئی تو فیسبک پہ امریکہ، آسٹریلیا، چائنہ کے وکلاء کے طریقہ احتجاج کی تصاویر لگا کر ہمیں شرم دلانا چاہ رہا ہے۔ اب کوئی ان حضرات سے پوچھے کہ ان ممالک میں وکلاء کی دو ٹکے کی عزت نہیں ہے۔ دو گلیاں چھوڑ کے انھیں کوئی جانتا نہیں ہوتا۔ محلے میں انھیں کوئی منہ نہیں لگاتا۔ بڑے وکیل بنے پھرتے ہیں۔

ہمارے ہاں آکے دیکھیں کہ پاکستان میں وکلاء کی عزت و احترام کا کیا عالم ہے۔ بڑے شہروں میں پورا محلہ اور چھوٹے شہروں میں پورے کا پورا شہر وکیل صاحب، وکیل صاحب کرتے نہیں تھکتا۔ بڑے بڑے چور لٹیرے ہمیں اپنا مرشد مانتے ہیں۔ اسمبلی سے لے کر پراپرٹی ڈیلرز تک، صلح صفائی کروانے سے لے کر ناجائز قبضہ کرنے تک، انصاف حاصل کرنے سے لے کر انصاف خریدنے تک ہر جگہ پہ کوئی نہ کوئی گڈ یا بیڈ لائیر موجود ہوتا ہے۔

وہ علیحدہ بات ہے ہمیں کرایہ پہ گھر حاصل کرنے کے لیے بڑی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر دوران خرید و فروخت کسی بھی دوکان دار کو یہ پتہ چل جائے کہ ہم وکیل ہیں تو دوکاندار صاحب ہمیں کوئی بھی چیز فروخت کرنے سے ڈرتے ہیں۔ پولیس والے کسی وکیل سے رشوت لیتے ہوئے ڈرتے ہیں، ججز صاحبان کمرہ عدالت کو مچھلی منڈی بن جانے کے ڈر سے ڈرتے ہیں۔ اب ان سب میں ہمارا کیا قصور ہے۔

جس ملک میں منتخب وزیر اعظم کو عدالتوں کے ذریعے پھانسی دلوا دی جائے۔ جس ملک میں منتخب حکومتوں کا تختہ تختہ مشق بن گیا ہو۔ جس ملک میں ایک سیاسی جماعت کا قائد ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دے کے بیٹھ جائے، سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دے، اداروں پہ قبضہ کرنے کا حکم نامہ جاری کرتا رہے اور اس کے ان کارناموں کو جسٹیفائی کرنے کے لیے صبح سے شام تک میڈیا ہاؤسز اور اینکر حضرات اپنے گلے بٹھا لیں۔ جس ملک میں خادم رضوی صاحب کئی روز تک ملک کے دارالخلافہ اور شہریوں کو حبس بے جاء میں رکھیں اور آخر میں ریاست اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔

جس ملک میں جی ٹی روڈ تحریک چلائی جائے۔ جس ملک میں ایک بار پھر مولانا خادم کے سامنے منتخب حکومت کا وزیراعظم گیدڑ بھبکیوں کے بعد معاہدہ کر لے وہاں اگر ہم وکلاء نے تھوڑی ہلڑ بازی کر لی یا پھر ڈپٹی کمشنر کو اس کی سیٹ سے کھڑا کر دیا تو کون سی قیامت برپا ہوگئی اور پھر ہم یہ سب اپنے مفاد کے لئے تو کر نہیں رہے۔ ہم تو اس بچی کھچی ریاست کے بچے کھچے لوگوں کے لیے جلد اور سستا انصاف کی فراہمی کو تیز کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی کوشش کر رہے ہیں۔ لہذا آئیندہ کوئی ایسا واقعہ ہم سے سرزد ہوجائے تو ہم پہ یہ وکلاء گردی والا ٹیگ ختم کر کے ہمیں گڈ لائیرز اور بیڈ لائیرز کے نام سے پکارا اور لکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).