چھینک، ماں کا پیٹ اور معجزہ


اکیسویں صدی کا اٹھارواں سال اختتام پذیر ہوا چاہتا ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہم اپنے بچوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ ماتم کرنے کو دل چاہا بچوں کو اسلامی تعلیمات کے نام پر کیا گھول کر پڑھایا جارہا ہے بلکہ کُورَس کی شکل میں رٹایا جارہا ہے، حیران کن ہے۔ ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں بچے بچیاں قطاروں میں بیٹھے ہیں اور استاد محترم یاد کروارہے ہیں کہ ”غوثِ اعظم پاک ماں کے پیٹ میں ولی تھے۔ ہمارے غوث الاعظم مادر زاد ولی تھے، آپ ماں کے پیٹ میں ولی تھے، بچپن سے ولی تھے، ابھی ماں کے پیٹ میں ہی تھے جب ماں کو چھینک آتی تو وہ ’الحمدللہ‘ کہتیں تو آپ ’رحمت اللہ یا رحمکِ اللہ‘ کہتے دیکھیں ماں کے پیٹ کے اندر بھی ان کو پتہ تھا کہ یہ میری ماں عورت ہے، غوث پاک نے ماں کے پیٹ کے اندر سے کیا جواب دیا؟ “۔ بچوں نے ہم آواز ہو کر زور سے کہا یا رحمکِ اللہ، زیر کے ساتھ، استاد سکھانا یہ چاہ رہا رہا تھا کہ عورت کے لیے زیر کی آواز اور مرد کے لیے زبر کی آواز نکلتی ہے۔

ماں کے پیٹ کا اتنی مرتبہ ذکر کیا کہ بچوں کو رٹتے ہی بنے گی اور وہ اپنی ماں سے بھی پوچھ بیٹھیں گے کہ ہم پیٹ میں ہوتے ہیں۔ یہ کس قسم کی تعلیم ہے؟ کیا پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل اس بات کا جواب دے گی؟ یوں تو سائنس بائیولوجی میں بچوں کو پریگننسی کے بارے میں پڑھانے پر یاد آجاتا ہے کہ ہم بچوں کو بے حیا بنا رہے ہیں، جانوروں کی لائف سائیکل پڑھانے پر اعتراض ہے۔

جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے

بچوں کے معصوم ذہنوں کو کس طرح تیار کیا جارہا ہے کس قسم کی تعلیم دی جارہی ہے۔ پاکستان میں محکمہ تعلیم بھی ہے، وزارت تعلیم بھی ہے قومی اور صوبائی دونوں سطح پر کسی کو یہ توفیق نہیں کہ اس طرف توجہ دے سکے۔

لاکھ مذہبی نظریات مختلف ہوں فرقے مختلف ہوں لیکن ایسی مافوق الفطرت تعلیم تو نہ دیں معصوموں کو، ہم اس تعلیم کے نام پر جاہلوں کی فوج تیار کر رہے ہیں جو فارغ التحصیل ہوکر اس قسم کی باتیں معاشرے میں پھیلائیں گے۔

ہمارے بزرگان ِ دین ہمارے لیے محترم ہیں اگر وہ بھی اس قسم کی تعلیم دیکھتے تو ضرور مخالفت کرتے، حضرت غوث الاعظم پاک رحمتہ اللّہ کی بزرگی میں کوئی دو رائے نہیں لیکن اس قسم کے من گھڑت واقعات بتا کر آپ اسلام کی کونسی خدمت فرمارہے ہیں۔ بچوں کے معصوم ذہنوں میں ان باتوں کے بجائے اللہ اور اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ڈالیں تاکہ وہ ایک بہترین مسلمان اور اچھے انسان بنیں۔ آپ ضرور سکھائیں کے چھینک کے جواب میں کیا کہتے ہیں مرد کو چھینک آئے تو کیا کہنا ہے عورت کو چھینک آئے تو کیا کہنا ہے۔ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں لیکن اس طرح کی من گھڑت واقعات سے آپ کیا سکھانا چاہ رہے ہیں ان معصوم ذہنوں کو الجھن میں مبتلا کرکے پراگندہ نہ کریں۔

ساری دنیا ترقی کررہی ہے تعلیم کے میدان میں، سائنس، ٹکنالوجی، آئی ٹی، میڈیسن، کیمسٹری، فزکس کن کن علوم میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ہم اپنے ملک میں بنیادی تعلیم ہی کو فروغ نہیں دے سکے۔ دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ دنیا میں بالا دستی قائم رکھنے والے ممالک امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی وغیرہ میں شرح خواندگی 99 فیصد ہے، وہیں ناروے روس، قزاقستان میں تو بالترتیب 100 فیصد، 99.6 فیصد اور 99.5 فیصد ہے ان ممالک میں خواتین تعلیم کے معاملے مردوں سے پیچھے نہیں۔ پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو دو ہزار تیرہ کی یونیسکو رپورٹ کے مطابق شرح خواندگی کے لحاظ سے 221 ممالک کی فہرست میں 180 ویں نمبر پرتھا اور پاکستان میں بالغ شرح خواندگی 56 فیصد ہے۔

پاکستان کو دنیا کے سامنے مضبوط بنانا ہے تو تعلیم کو فروغ دینا ہوگا، تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس سے مغرب کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے حکمران چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے دورے کر رہے ہیں ملک کے خزانے کو بھرنے کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں ہر طرح کے معاہدے ہو رہے ہیں لیکن ملک کی بنیاد جو بچے ہیں ان کی تعلیم کا کہیں ذکر نہیں، تعلیم کے لیے کوئی ترجیحات نہین، ایوان ِ صدر وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے کا پلان ہے لیکن بنیادی تعلیم کس طرف جارہی ہے اس کا کوئی خیال نہیں۔

میراپاکستان کے تمام علمائے کرام اور وزارتِ تعلیم سے سوال ہے کہ کیا اس طرف بھی دھیان دیا جائے گا یا بنیادی تعلیم کی اہمیت نہیں اور ہمارے بچے ان من گھڑت باتوں میں الجھ کر رہ جائیں گے۔ نہ اس سے دین کی خدمت ہو رہی ہے نہ دنیا کی، اس لیے خدارا اس طرف دھیان دیں ورنہ یونیورسٹیوں کی عمارات میں الو بول رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).