بلوچستان میں ٹوئٹر والی سرکار اور اسفند یار خان


بلوچستان کے بدقسمت صوبے کو کبھی ایسا حکمران میسر نہیں آیا جو خودمختار ہوتا، جو صیح معنوں میں صوبے کا فعال حکمران کہلا سکتا۔ بلوچستان میں اچھی حکمرانی کی نویدیں ہر نئی حکومت کے آنے کے بعد سنائی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں کیا جاتا کہ جس سے اچھی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو، یہاں ہمیشہ سے گڈگورننس کی ہے جس نے نظام کو مفلوج بنا رکھا ہے۔ صوبے میں تعلیم کی کمی ہے۔ جو رائے عامہ کمزور بناتی ہے۔ پانچ سال بعد سیاسی مداری جلسے جلوسوں میں منظر عام پر آکر عوام کو سابقہ حکومتی کرپشن کی داستانیں سنانا شروع کردیتے ہیں اور نئے انتخابات کے بعد اس کھیل کا تسلسل جاری و ساری رہتا ہے ۔ نااہل وزراء و آفیسران کو اہم ذمہ داریاں دیا جانا ہی بڑی وجہ ہے، یہاں سسٹم ٹھیک ہونے نام نہیں لے رہا ہے ۔ بلوچستان میں اچھے آفیسران کو ایسے محکموں میں کپھایا جاتا ہے جس میں وہ نمائشی طور پر اپنی کرسیوں پر وقت گزارتے ہیں۔ اور خود کو صوبے کا عضو معطل سمجھ لیتے ہیں ۔ شاید یہ تیور جام حکومت بھی اپنانے کیلئے بے تاب ہے ۔ کیونکہ اس وقت بلوچستان میں مختلف اضلاع میں ضلع کی انتظامی دیکھ بھال کے ذمہ دار ڈپٹی کمشنرز انتہائی جونیئر آفیسران تعینات ہیں، جن میں سے اکثر نے فیلڈ میں بطور اسٹنٹ کمشنر کے بمشکل ایک آدھ بار خدمات سرانجام دی ہیں، اور اب ان کے حوالے پورا ضلع کردیا گیا ہے، موجودہ حکومت نے بھی اچھی حکمرانی کا عوام سے وعدہ کیا۔

اچھی حکمرانی کیلئے کسی بھی حکومت کو ایماندار اور خدمت کے جذبے سے سرشار وزراء و بیوروکریٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ گڈ گورننس کا نفاذ ہوسکے جس کیلئے وزراء کو ان کی استعداد کے مطابق محمکے اور اہم انتظامی عہدوں پر چن چن کر قابل آفیسران تعینات کئے جاتے ہیں، بلوچستان میں صورتحال مختلف رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ اور موجودہ حکومت میں اچھے حکمران کا متلاشی صوبہ رفتہ رفتہ مایوس ہوتا جارہا ہے۔

وفاقی حکومت نے 2012 میں جب بلوچستان حکومت کے 5 آفیسران کو گریڈ 21 میں ڈی ایم جی گروپ میں ضم کرنے کیلئے نام مانگے تو کوئی صوبائی سروس کا آفیسر صوبے میں اپنی مراعات چھوڑ کر جانے کو تیار نہ ہوا، کیونکہ یہاں پر سکریڑی کی زندگی وفاقی ایڈیشنل سیکرٹری سے زیادہ پرکشش اور عالی شان تھی، لیکن آج 2018 میں منافع بخش پوسٹ سیکریٹری پلاننگ انیڈ ڈویلپمنٹ کی پوسٹ پر تعینات اسفندیار خان کاکڑ ؛ صوبے کی خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر قانونی طور پر حاصل ہونے والی 3 لاکھ 50 ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ، 400 لیٹر پٹرول ٹی اے ڈی اے اور دیگر مراعات چھوڑ کر محض ایک لاکھ روپے اور گمنام آفیسر کی زندگی بسر کرنے لگے اور سیکریٹری سے جوائنٹ سیکریٹری کہلانے پر تو رضامند ہیں لیکن بلوچستان میں مراعات اور مفادات سے مزین سیکریٹری پلاننگ انیڈ ڈویلپمنٹ کی پوسٹ پر کام کرنے کو تیار نہیں ہیں، جب ان کو اجازت نامہ ملتا ہے تو وہ دوستوں سے کہتے ہیں خدا کا شکر ہے کہ عزت سے اس صوبے کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

یہاں یہ قدم صوبے کی گورننس پر سوالات اٹھاتا ہے کہ ایک 20 گریڈ کا آفیسر مراعات بھری زندگی اور اپنا صوبہ چھوڑ کر کیوں جارہا ہے؟ انہوں نے حالیہ پی ایس ڈی پی میں بطور سیکریٹری پی انیڈ ڈی اربوں روپے کے جو عوامی مفادات کے منصوبے شامل کروائے آج وہ وفاقی پالیسی کے تحت سرکاری گاڑی سے بھی محروم ہیں لیکن خوش و خرم ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں ان کے ہم عہدہ آفیسران سکریٹریز کے پاس اپنے اور گھر والوں کے استعمال کیلئے گاڑیوں کی لائن لگی ہوئی ہے ۔

بازگشت ہے کہ ایک ماہ قبل تعینات کئے جانے والے سیکریٹری انڈسٹریز بلوچستان اور انتہائی اچھی شہرت کے حامل پسند خان بلیدی کو تبدیل کیا جارہا ہے، چیف سکریٹری بلوچستان کو بھی یہاں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے جو کہ جونیئر آفیسر ہونے کی وجہ سے اپنی سروس پروفائل میں زیادہ سے زیادہ بطور چیف سکریٹری بلوچستان رہنا چاہتے ہیں وہ معاملات سے خود کو مکمل طور پر بے خبر رکھے ہوئے ہیں یعنی کسی ایماندار سیکریٹری کے غلط کام پر مزاحمت کی صورت میں سیاسی حکومتی دباو میں اپنے سیکریٹری اور آفیسر کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں، ماضی میں انڈسٹریز ڈپارٹمنٹ بلوچستان میں اربوں روپوں کے انڈسٹریل زون گوادر، حب، وندر اور اوتھل میں کمرشل پلاٹ مل کر اونے پونے داموں فروخت کرچکے ہیں۔ پسند خان بلیدی نے جب سیکریٹری انڈسٹریز کا چارج سنھبالا تو بس بہت ہو گیا کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئے۔ یہ وہ افیسر ہیں جن کے متعلق وزیراعلی جام کمال خان اپنے ٹوئٹر پر لکھ چکے ہیں کہ ان کو خوشی محسوس ہورہی ہے کہ بلوچستان میں ایسے افیسران بھی ہیں جو کہ انہوں نے بطور وفاقی وزیر پانچ سالہ دور میں اسلام آباد میں نہیں دیکھے۔ وزیراعلی کی تحریر کی سیاہی بھی نہیں سوکھی تھی کہ انکو تبدیل کرنے کی باتیں شروع ہو گئیں۔
برسہا برس سے دباؤ کا شکار صوبائی سروس کے اچھے افیسران کیلئے یہ خبر پریشان کن ثابت ہورہی ہے جس سے ان کا کام کرنے کا جذبہ کمزور ہورہا ہے، گوادر کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کا بہ بانگ دہل ،وزیراعلیٰ بلوچستان کریڈیٹ لیتے ہیں درحقیقت یہ کریڈیٹ موجودہ حکومت می ںمحکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ سے تبدیل کردہ سیکریٹری زاہد سلیم کے سر ہے بطور سیکریٹری دن رات ایک کر کے پانی کا دیرینہ مسئلہ حل کرایا۔ بذریعہ ٹینکر چار روپے ملنے والے پانی کو 80 پیسے میں بذریعہ پائپ لائن ممکن بنایا۔
اس خلوص کی ستائش کچھ اس طرح کی گئی کہ وہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن کے سکریٹری نورالحق بلوچ کو اس پاداش میں تبدیل کیا گیا ہے کہ انہوں ایک وزیر کی منشا کے خلاف ایک 17 گریڈ کے استاد کو مفاد عامہ کے تحت تبدیل کیا اور یہ آرڈر ایک وزیر کی خواہش پر واپس نہ لینا ان کے تبادلے کی وجہ بنا۔
آخر یہ بد انتظامی کب تک ؟ ایسی قابلیت ایسی دیانت داری کس کام کی جس میں اپنی مرضی دوسرے کی ہوس کی بھینٹ چڑھا کر غریب عوام کو بے بسی اور بے کسی کے دریا میں غوطے کھانے کو چھوڑ دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).