اور اب امریکہ سے بھی پنگا۔۔۔


\"irshadمشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کو دی گئی بریفنگ کا ایک ایک لفظ دکھ اوراس کرب کا اظہار تھا جس سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ ان دنوں گزر رہی ہے۔ ان کا تجزیہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے روایتی حریفوں بالخصوص بھارت اور افغانستان کے اشتراک سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں ملوث ہے۔ عالمی سطح پرپاکستان کو تنہا کرنے اور پاک چین اقتصادی راہداری کےخلاف سازش ہو رہی ہے۔ امریکہ اور بھارت کے مابین جس تیزی سے تعلقات میں گہرائی اور گیرائی آئی ہے اس نے اسلام آباد کو لرزا دیا ہے۔ امریکہ پر مودی کا جادو چل گیا ہے اور صدر بارک اوباما ان کی باتیں دلچسپی اور انہماک سے سنتے ہیں جیسے کہ امریکی کانگریس سے مودی کے خطاب کے دوران دیکھا اور محسوس کیا گیا۔

حالیہ چند ماہ میں پاک امریکہ تعلقات میں کئی ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر ازسر نو غور کرے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں امریکہ نے ایف16 لڑاکا طیاروں کی کچھ رقم ایڈوانس لینے کے باوجود فراہمی سے انکارکر دیا۔ کبھی دبے اور کبھی کھلے لفظوں میں پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والی ریاست قرار دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھی امریکی میڈیا اور علمی حلقوں میں ازسر نو بحث شروع ہو چکی ہے۔ پاکستان پر دباؤ ڈلا جا رہا ہے کہ وہ چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تیاری ترک کر دے۔ دوسری جانب بھارت کو عالمی نیوکلئر کلب کی رکنیت دی جا رہی ہے۔ بقول سرتاج عزیز کے امریکہ کی بھارت کو ملنے والی حمایت سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کا انحصار چھوٹے جوہری ہتھیاروں پر بڑھ رہا ہے لیکن امریکہ پاکستان کے تحفظات کو نظرانداز کرکے اپنی پی مرضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایک طرف پاکستان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے تو دوسری طرف امریکہ ایسے اقدامات کرتا ہے جو اس عمل ہی کو تہہ وبالا کر دیتے ہیں.چند ماہ قبل طالبان کا وفد پاکستان کے دورے پر تھا کہ افغانستان کی حکومت نے انکشاف کیا کہ ملاعمر کا انتقال ہوچکا ہے۔ چنانچہ مذاکراتی عمل معطل ہو گیا۔ اب جب کہ پاکستان چین کی مدد سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرانے کی کوششوں میں تھا کہ ملا اختر منصور کو ہلاک کر دیا گیا۔ اختر منصور کی ہلاکت سے پاکستان کی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کی جانے والی محنت پر پانی پھر گیا۔ عسکری اور سیاسی قیادت کا نقطہ نظر ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذکرات کے عمل کو جان بوجھ کر سبوتاژکیا اور پاکستان کی بطور ثالث کے پوزیشن خراب کر ڈالی۔ اب ایک طویل عرصے تک طالبان کو مذاکرات کی جانب راغب نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ وہ پاکستانی حکام پر اعتماد ہی نہیں کریں گے۔ علاوہ ازیں طالبان کے لیے جنگ ہی اب ایک ایسا ذریعے رہ گیا ہے جو انہیں داخلی طور پر متحد رکھ سکتا ہے اور امکانی انتشار سے بچا سکتا ہے۔

بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں طالبان شوری کے صدر مقام اور مختلف لیڈروں کی رہائش کے الزامات کے باوجود امریکہ اور پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین یہ مفاہمت پائی جاتی تھی کہ وہ بلوچستان کے علاقوں میں ڈرون حملے نہیں کرے گا۔ اب اس نے بلوچستان میں بھی ریڈ لائن کراس کرلی ہے۔ جس نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کورائے عامہ اور پاکستانی میڈیا کے سامنے زبردست شرمندگی سے دوچار کیا۔

جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ڈھائی سال میں دہشت گردوں کے خلاف فوج کو بے جگری سے لڑایا حتی کہ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال غیر معمولی طور پر بہتر ہوئی۔ غیر ملکی ایجنسیوں کا نیٹ ورک پکڑا گیا یا اسے غیر موثر بنایا گیا۔ کراچی اور وزیرستان سے ہزاروں ٹن کا اسلحہ پکڑا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اتنا اسلحہ اور بارود پکڑا گیا کہ دہشت گرد پندرہ سال تک بھی فوج سے لڑتے رہتے تو یہ اسلحہ کافی تھا۔ قبائلی علاقوں میں امریکیوں اور عرب ممالک کی مدد سے جہاد افغانستان کے دوران سوویت یونین کی فوجوں کے مقابلے کے لیے جو خفیہ پناگاہیں بالخصوص غاریں تعمیر کی گئیں تھیں۔ اس انفرا سڑکچر کو تباہ کیا گیا۔ ان علاقوں میں ایسی غاریں بھی تھیں جن کی لمبائی کئی کئی کلو میٹر تھی۔ ان کامیابیوں نے ملکی معیثت پر مثبت اثرات مرتب کیے اور بتدریج پاکستان ایک بار پھراپنے قدموں پر کھڑا ہونا شروع ہوا۔ شرح پیداوار میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

چین نے بھی پاکستان کی اقتصادیات کو سہارا دینے اور اسے ایک مضبوط ملک بنانے کی خاطر چھیالیس ارب ڈالر کی خطیر رقم سے اقتصادی راہداری اور درجنوں بجلی کے منصوبوں پر کام شروع کیا تو پاکستانیوں کا اعتماد یک دم بڑھ گیا۔ غیر ملکی سرمایا کار بھی دوبارہ پاکستان کی طرف راغب ہونے لگے‘ خاص کر بیرون ملک آباد ستر لاکھ پاکستانیوں میں امید کی ایک کرن پیداہوئی اور انہوں نے اپنے ملک میں سرمایاکاری کے منصوبوں میں رقم لگانا شروع کی۔

امریکہ اور چین کے مابین تمام تر تجارتی اور کاروباری لین دین کے باوجود ایشیا میں بالادستی کی سردجنگ نے ایک نیا رخ لیا ہے۔ روس اور چین امریکہ کو ایشیائی ممالک سے دور رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جب کہ بھارت اور جاپان چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ کی چھتری تلے چین کی تیزی سے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو کم کریں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر چین کو روکا نہ گیا تو وہ نہ صرف ایشیائی ممالک کی منڈیوں پر قابض ہوجائے گا بلکہ تجارتی راستوں بالخصوص سمندری گزرگاؤں پر بھی کنٹرول حاصل کرلے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھی چین کے خطے میں بالادستی قائم کرنے اور توانائی بالخصوص خلیجی ریاستوں سے تیل اور گیس کے حصول کے لیے متبادل راستہ کا انتظام تصور کیا جاتا ہے۔

اس پس منظر میں اسلام آباد میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے مابین پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے یا ناکام کرنے کے لیے مفاہمت پائی جاتی ہے۔ اسی لیے امریکہ کو جب بتایا جاتا ہے کہ افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم کر رہی ہیں تو وہ نہ صرف چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے بلکہ ایسے شواہد کو ذرا بھر اہمیت نہیں دیتا۔

بھارتی وزیراعظم نریندمودی کا ایران کی سرزمین پر کھڑے ہوکر افغان اورایرانی صدر کے ہمراہ چاہ بہار میں بندرگاہ کی تعیمر کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کا اعلان اسلام آباد کے لیے غیر متوقع تھا کیونکہ اسلام آباد میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایران اور افغانستان اس طرح کھلےعام بھارت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے اندر اس صورت حال پر سخت ردعمل کی کیفیت پائی جاتی ہے اور خدشہ ہے کہ کئی سخت گیر اور بے لچک عناصر پالیسی سازی کے عمل پر غالب نہ آجائیں۔ جو پاکستان کو مزید تنہائی کا شکار کردیں گے۔

 یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے کبھی بھی کوئی مثبت نتائج نہیں نکلے۔ امریکہ اوربھارت کی حکمت عملی کا دونوں ممالک یا خطے میں امن واستحکام کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ اس کے منفی اثرات کے امکانات زیادہ ہیں۔ پاکستان کا چھوٹے اورمہلک ہتھیاروں پر انحصار اور زیادہ بڑھ جائے گا۔ وہ چین سے مزید قریب ہوجائے گا اور مغربی دنیا سے الگ تھلگ ہوتا جائے گا۔ کشمیر میں عسکری تحریک دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے جو ان دنوں کچھ دم خم دکھا رہی ہے۔ افغانستان کے اندر طالبان زیادہ سرگرم ہوسکتے ہیں۔

 پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں بارآور ہوتی نظر نہیں آتی ہیں بلکہ اسے علاقائی معاملات میں شریک رکھنا ہی دنیا اور خطے کے مفاد میں نظر آتا ہے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments