ہم سب نام نہاد مہذب ہیں


بہت عرصے کے بعد حسین شاہ سے ملاقات ہو رہی تھی۔ حسین شاہ لارنس گارڈن میں مزار کے سامنے بنچ پر پرسکون بیٹھے تھے اور آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا اجمل میاں کیسے ہو؟ میں نے کہا شاہ جی گزشتہ کچھ عرصہ بہت تکلیف اور مسائل میں گزرا۔ شاہ جی نے مسکراتے ہوئے کہا ماضی کے دنوں کو دفع کرو، ابھی اس وقت کیسے ہو؟ میں نے کہ اطمینان کی کیفیت میں ہوں۔ شاہ جی اتنا عرصہ آپ کہاں غائب رہے ہیں؟ فرمانے لگے اجمل میاں کچھ سال یورپ اور امریکہ میں رہا ہوں اور اب تمہارے ساتھ لارنس گارڈ میں بیٹھا آسمان کی بلندیوں کے نظاروں کا لطف لے رہا ہوں۔

شاہ جی یہ فرمائیں پاکستان اور یورپ و امریکہ کے انسانوں میں کیا فرق پایا یا وہ بھی ہماری طرح ہیں؟ اجمل میاں اس ملک میں ہر انسان کے سامنے انا کی دیوار کھڑی کردی گئی ہے۔ یہاں کے انسان جہاں بھی جاتے ہیں، اپنی اپنی انا کو اٹھائے پھرتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے انسان ہیں لیکن بہت کم۔ ہمارے سماج میں تو تمام انسان ہی انا پرست ہیں۔ یہ انا کی دیوار کیا ہے اور کیوں ہے؟ مجھے تو کبھی نظر نہیں آئی۔ شاہ جی فرمانے لگے انا کی دیوار انسان کے باہر کی دنیا میں نہیں ہوتی، یہ انسان کے اندر کی دنیا میں ہوتی ہے۔ جو انسان الرٹ ہوتے ہیں۔ شعور اور آگہی سے مالا مال ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کیوں مشکل میں ہیں اس لئے وہ اس دیوار کو گرا دیتے ہیں۔ جو انسان لاشعوری کیفیت میں مبتلا ہیں انہیں زندگی بھر احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ انا پرست ہیں۔

حقیقی داستان یہی ہے کہ یہاں انسان انا کا قید ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو گھٹیا ترغیب دیتی ہے۔ اسے گمراہ کرتی ہے۔ اس کے اندر یہ بات بٹھاتی ہے کہ وہ اس کی حفاظت کررہی ہے۔ اس کا ہونا ضروری ہے۔ انا ہمیشہ انسان کو بار بار یہ بتاتی رہتی ہے کہ انسان اس کی وجہ سے محفوظ ہے اسی لئے یہاں کے انسان آسانی سے اناپرستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ ہمیشہ انسان کو یہ سمجھاتی رہتی ہے کہ زندگی میں بہت خطرات ہیں۔ بہت رسک ہیں۔

اس لئے انسان کے اردگرد اس کا حصار ضروری ہے۔ کسی حد تک یہ درست بات ہے کہ انا پرستی کی وجہ سے انسان کو کچھ تحفظ مل جاتا ہے لیکن انا پرست انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قیدی بن جاتا ہے۔ زندہ لاش ہو جاتا ہے۔ انا کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ انسان کو دوستوں اور دشمنوں دونوں سے محروم کردیتی ہے۔ ایسی پریشانیاں اور مسائل لاتی ہے جس سے انسان معذور ہوجاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دشمن کے خوف کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو ایک کمرے میں قید کر لے۔ اس طرح وہ محفوظ تو ہوجاتا ہے لیکن دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوستوں کو بھی کھو دیتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ انا کا قیدی رہتا ہے۔ ایسے انسان کو ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ اگر اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو کہیں دشمن بھی اس کمرے میں نہ آجائے۔ اسی لئے انا زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

کیسے اس سے نجات حاصل کی جائے؟ بہادر انسان ہی انا کو شکست دے سکتے ہیں۔ ایسے انسان جو خطرات سے نہیں گھبراتے، جو زندگی میں ہمیشہ رسک لیتے ہیں۔ جو ہمیشہ سامنے آکر چیلنج کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہی تو ہیں جو انا کی دیوار کو گرادیتے ہیں۔ بزدل کمروں کے اندر رہتے ہیں اور زندہ لاش ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بزدل اپنی زندگی کو گنوا بیٹھتے ہیں۔ حسین شاہ نے فرمایا انا پرست تو پہلے سے ہی مرا ہوا ہوتا ہے۔ مرے ہوئے کو مارنے کی کیا ضرورت۔

انا پرست اور قبر میں سوئے انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان جب قبر میں گیا اسے بیماری سے نجات مل گئی، مشکلات سے چھٹکارا مل گیا، پریشانیاں اس کا ساتھ چھوڑ گئیں۔ تمام مسائل سے اسے نجات مل گئی۔ یہی حال انا پرستوں کا ہے۔ وہ کمروں اور جیلوں میں اپنے آپ کو بند کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں محفوظ ہو گئے حالانکہ وہ مرجاتے ہیں۔ لیکن جو انسان زندہ ہیں اور انا سے آزاد ہوتے ہیں، انہیں لاکھوں مسائل بھی مسائل نہیں لگتے۔

وہ ان مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور مشکلات کو انجوائے کرتے ہیں۔ وہ مسائل کے ساتھ لڑتے ہیں۔ مسائل کو چیلنج کرتے ہیں خطرات کے سامنے آتے ہیں اور ان کو شکست دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی نشوونما ہوتی رہتی ہے۔ لیکن بزدل صرف اور صرف اپنی انا کی نشوونما میں جتا رہتا ہے۔ بہادر معلوم سے نامعلوم دنیا کا سفر لمحوں میں طے کرتے ہیں اور بزدل کمروں میں قید رہتے ہیں۔ جب انسان تمام سیکیورٹی اور تحفظات سے نکل جاتا ہے اور زندگی میں قدم قدم پر رسک لیتا ہے وہی انسان ہے جو وسیع اور لامحدود معلوم و نامعلوم دنیا کو جان پاتا ہے اور زندگی کو بھرپور انداز میں انجوائے کرتا ہے۔

انا پرست خوف زدہ لوگ ہیں اسی وجہ سے معذور ہیں۔ جب ماں کے پیٹ سے آگئے ہو تو پھر کاہے کا خوف۔ اب دنیا میں آگئے ہو تو تمام دروازے، کھڑکیاں اور روشن دان توڑ ڈالو اور شفاف صورت میں دنیا کے سامنے ظاہر ہو جاؤ۔ عقائد، نظریات، رسوم و رواج سب انا کی دیواروں کو محفوظ بناتے ہیں۔ انسان کو آزادی چاہیے تو اسے انا کی دیواروں کو گرانا ہوگا۔ اناپرستی جس دن دنیا سے غائب ہو گئی اسی دن سے دنیا خوبصورت اور دلکش ہو جائے گی۔

اناپرستی ہی کی وجہ سے انسان منافق، جھوٹا اور غیر شفاف ہے۔ جس دن یہ اناپرستی اور انا پسندی کو شکست دے گا، اس کے اندر اور باہر کی دنیا میں تازگی اور کشادگی نازل ہو جائے گی۔ رسوم، رواج اور دستور کچھ نہیں، یہ انسانوں کی اناؤں کی مدد کرتے ہیں اور انسان کو اپنا قیدی بناتے ہیں۔ انا کو شکست دو اور سچ کو پالو یہی حقیقت ہے اور زندگی کی حقیقی دلکشی ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کی تعریف کررہا ہے، اس طرح دونوں ایک دوسرے کی انا کی تسکین کررہے ہیں۔ دونوں انا پرست اور زندہ لاشیں ہیں۔

انا سے خالی انسان تعریف و توضیح سے مبرا ہوجاتا ہے۔ ہم سب گیم باز ہیں۔ ہم سب نام نہاد مہذب ہیں۔ ہم سب نے اپنے چہروں پر ماسک چڑھا رکھے ہیں۔ انا کی دیوار روز بروز گہری ہوتی جارہی ہے اس سے نجات پانا ہے تو فوری فیصلہ کرو اور اس دیوار کو ڈھا دو۔ حسین شاہ کی باتیں جاری تھی اور مجھے اپنی اندر کی

دنیا کے مسئلے سے آگاہی ہوچکی تھی۔ شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ شاہ جی آسمان کی وسعتوں میں غائب ہو چکے تھے۔ میں بنچ پر اکیلا بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ میری تمام پریشانیاں اسی انا کی دیوار کے سبب ہی تو ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).