سندھ کی ایجوکیشن رپورٹ


سندھ میں تعلیم کا حال گزشتہ کئی سال سے ناگفتہ بہ ہے۔ حکومتی دعوے صرف دعووں تک ہی محدود رہے۔ مگر تعلیم میں بہتری نہ آسکی۔ آج بھی سرکاری اسکولوں کی حالت کی اگر بات کی جائے، تو یہ اسکول اگر فنکشنل ہوں گے تو وہاں پر طلبا کو بیٹھنے کے لئے فرنیچر، پینے کے لئے صاف پانی، واش روم، بجلی کی سہولیات کی مشکلات درپیش ہوں گی۔

اس حوالے سے ضلع کشمور ائٹ کندھ کوٹ کی تعلیم کا حال بھی کچھ اس طرح سے ہے۔ ضلع کشمور میں 2005 کے سال میں پرویز مشرف کے دور حکومت ناظموں کے وقت سے لے کر آج تک اسکولوں کی حالت زوال پذیر ہے۔ ضلع بھر میں پرائمری، الیمنٹری، سکنڈری اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں کی تعداد 1495 ہے جن میں اسکول کلاس رومز کی تعداد 2035 ہے ایک سروے کے مطابق ان اسکولوں میں سے 134 اسکول مکمل زبون حال ہیں، جو کسی بھی وقت گر کر بچوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اسی طرح 658 اسکول وڈیروں کے اوطاق بنے ہوئے ہیں، جو بلڈنگ تو سرکاری ہوں گی مگر اس میں با اثر لوگ اپنی بیٹھک بنا کر استعمال کرتے ہوئے نظر آرہے ہوں گے۔ 527 اسکول اس وقت تک زیر تعمیر ہو رہے جن میں کئی ایسے اسکول ہیں۔ جن کو 13 برس بیت جانے پر بھی ان کا کام مکمل نہ ہوسکا ہے۔ 171 اسکولوں کی حالت اطمینان بخش ہے جہاں پر سہولت نام کی کوئی چیز نہیں، وہاں پر واشروم، پینے کہ لئے صاف پانی اور بجلی کی سہولیات بھی موجود نہیں۔

ان تمام اسکولوں میں 3198 اساتذہ موجود ہیں۔ جن میں ان ٹرینڈ استادوں کی تعداد 36 ہے جبکہ ضلع بھر کے اسکولوں کی انورمینٹ پرائمری اسکول میں جن بچوں کی داخلائیں نہیں ہوئی ان کی تعداد 9168 ہے جبکہ پہلی سے پانچویں جماعت تک 48197 ہے اسی طرح گرلز اسکولوں میں 4750 بچیاں جن کے داخلے نہیں ہوئے ہیں۔ اور پہلی سے پانچویں جماعت کی طالبعلم کی تعداد 21458 ہے جن کی مکمل تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار تین سو پانچ طلبا زیر تعلیم ہیں۔

ان تمام اسکولوں کی بجٹ کی بات کی جائے تو حالیہ بجٹ 2018 / 19 میں پراونشنل سندھ حکومت نے 2 ارب 27 کروڑ 44 لاکھ 67 ہزار روپے جاری کیے تھے، جس میں سندھ حکومت نے کہا کہ ضلع کشمور کے اسکولوں میں کنسٹریکشن اپ گریڈیشن شیلٹر لیس اور ائڈیشنل رومز کو مکمل کیا جائے مگر سائیں سرکار نے ان پیسوں کو ایسے لوٹا جیسے ہوا میں پتے اڑائے جائیں اور جرنل الیکشن کے اخراجات نکال کر اسکولوں کا کام تعطل کا شکار ہوگیا، مذکورہ بجٹ سے ایک ارب 34 کروڑ 52 لاکھ ایک سال میں خرچ کیے گئے مگر دیکھنے میں کچھ نظر نہیں آیا،

اس حوالے سے ہم نے رابطہ کیا سول سوسائٹی اور جے ڈی اے کے رہنما ایڈوکیٹ عبدالغنی بجارانی سے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 10 سالوں سے وفاق اور صوبائی حکومتوں میں رہی ہے۔ مگر انہوں نے کبھی ایجوکیشن پر دھیان نہیں دیا۔ محکمہ تعلیم میں کرپشن کی انتہا ہو رہی ہے 2 ارب روپے سندھ حکومت نے اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے کہ لئے جاری کیے، اور اس میں سے ایک ارب روپے خرچ بھی ہوگئے، جس کی کوئی انکوائری نہیں گئی۔

سندھ سرکار نے ہمیشہ ایسا ہی کیا ہے عوام کو روٹی کپڑا مکان کا نعرہ تو دیا مگر افسوس کہ عوام کے بچوں سے تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسکولوں کی حالت آج بھی ایسی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ 11 لاکھ آبادی پر مشتمل اس ضلع کے اندر ہمارے پاس ایسے دیہی علاقے ہیں، جہاں پر تعلیم نام کی سہولیات موجود نہیں ہے۔

اس وقت صرف 1 لاکھ 13 ہزار پانچ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جنہیں مکمل تعلیم کی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ سندھ حکومت کو چاھئے کہ خرچ ہونے والی رقم کی انکوائری کروا کے کرپشن کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور مانیٹرنگ ٹیم کو مقرر کیا جائے، جس کو چاھئے کہ اسکولوں میں سیاسی مداخلت کو ختم کرکے استادوں کو روزانہ اسکول آنے پر پابند کیا جائے، اور تعلیم کو بہتر بنانے کہ اقدام لیا جائے اگر ایسے نہیں کیا گیا تو تعلیم میں بہتری نہیں آسکے گی۔

تجزیہ نگار راجا گوپی نے کہا کہ ضلع بھر میں جاگیردار وڈیروں نے محکمہ تعلیم کو کنٹرول کر کے اقربا پروی کا مظاھرہ کرکے ان جگہوں پر اسکولوں کی بلڈنگیں، تعمیر کروائیں جہاں پر آبادی کم ہے۔ اور وہ اسکول صرف الیکشن کے دوراں ان ایم این اے اور ایم پی ایز کے لئے پولنگ اسٹیشن کے کام آسکے۔ سندھ میں ایک سروے کے مطابق تعلیم کے لحاظ سے ہمارا ڈسٹرکٹ ہے جہاں غریب کے بچے اسکولوں کے بجائے محنت مزدوری کرنے لگے ہیں، سرمایہ داروں کے بچے نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو اسکول ان وڈیروں اور جاگیرداروں کے کنٹرول میں ہیں۔ وہ اس وقت بھی خستہ حالی اور اوطاقیں بنی ہوئی ہیں، کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ یہاں کے لوگ تعلیم حاصل کریں۔

اس حوالے سے وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ سندھ میں تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ کافی ہم نے تعلیم کو بہتر بنانے کے اقدامات اٹھائے ہیں، میں نے خود اپنی بیٹی کو سرکاری اسکول میں داخل کروا کے ایک میسیج دیا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کروائیں۔ تاکہ سرکاری اسکولوں کا ماحول بہتر ہوسکے، جہاں تک اسکولوں کی تعمیراتی کاموں پر جو اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں، ان میں خرد برد کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب آراکین ہمیشہ کہتے ہیں کہ ترقی دیکھنی ہے۔ تو سندھ میں جاکر دیکھو، مگر افسوس کہ سندھ کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے صرف جھوٹے دعوے کرکے تعلیمی ایمرجنسی لگا کر اربوں روپے ہڑپ کیے گئے۔ اگر ایسا ہی حال رہا تو سرمایہ دار، جاگیردار، اور آفسران کے بچے تو تعلیم حاصل کرسکیں گے، لیکن محنت کش مزدور کسان کے بچے تعلیم کے زیور سے محروم رہ جائیں گے۔ جس کی وجہ سے ترقی کے بجائے پسماندگی ہی رہ جائے گی، اس لئے سندھ حکومت اور پپلز پارٹی کی قیادت کو چاھئے کہ سندھ بھر میں تعلیمی صورت حال دیکھی جائے، اس معاملے کو کاغذی کارروائی کے بجائے حقیقی طور پر ایکشن لے کر سندھ کے اندر تعلیمی ماحول کو بہتر بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).