خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات: کیا فسانہ؟ کیا حقیقت؟


گذشتہ دنوں پڑوسی ملک کی معروف اداکارہ تنوشری دتہ کے حوالے سے ساتھی اداکار پر لگائے جانے والے جنسی ہراسانی کے الزام نے ایک بار پھر ماضی میں رونما ہونے والے اس نوعیت کے واقعات کی جانب توجہ مبذول کرادی ہے۔ تنوشری دتہ کا شمار بالی وڈ کی ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے کم عرصے میں فلمی صنعت میں اپنی پہچان بنالی اور کئی سپر ہٹ فلموں کا حصہ بھی رہیں۔ لیکن نجانے ایسا کیا ہوا کہ تنوشری دتہ اچانک ہی بنا کسی اطلاع یا جواز کے فلمی پردے سے غائب ہوگئیں۔

ایسے میں میڈیا نے کئی بار ان کا سرغ لگانے کی کوشش بھی کی تاہم وقت کی گرد اس حسین اداکارہ کا سحر کم کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی کہ اچانک دس برس بعد تنوشری دتہ ایک دھماکا خیز پریس کانفرنس کے ساتھ ایک بار سرخیوں میں آٓگئی، خبر یہ تھی کہ کہ تنوشری دتہ کو ساتھی اداکار نے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ ایک بار پھر اس خبر کے ساتھ ہی پنڈورا بکس کھل گیا لوگ اپنے اپنے انداز سے خبر کا تبصرہ کرنے لگے کچھ لوگ تنوشری کو تو کچھ نانا پاٹیکر کو بھی ْقصور وار سمجھے۔ سچ کیا تھا کیا ہے اس کا فیصلہ شاید وقت کردے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہراسانی کے ان گنت واقعات میں ایک واقعے کا اضافہ ضرور ہوگیا ہے۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بالی وڈ سے ذرا آگے چلے چلتے ہیں لولی وڈ کی جانب یعنی پاکستان میں جہاں مشہور ماڈل اور سنگر میشا شفیع نے کچھ عرصہ قبل ساتھی اداکار علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے۔ یہ کیس تاحال عدالتی فیصلے کا منتظر ہے مگر یہاں ہمارا مقصد کسی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرنا نہیں بلکہ ہم معاشرے کے عمومی رویے کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ میشا شفیع کے کیس میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے مضحکہ خیز انداز اختیار کرتے ہوئے ایک عورت کو ہی نشانے پر رکھا۔

ان سے یہ سوال کیا گیا کہ اتنے برس تک وہ چپ کیوں رہیں۔ تنقید کرنے والوں کی اس لائین میں چند لوگ ایسے ضرور تھے کہ جنھوں نے میشا کا دفاع بھی کیا اور ساتھی اداکار پر شکوک شبہات کا اظہار بھی کیا تاہم ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی تھی۔ ، تنقید کرنے والوں سے ہمارا سوال بس یہ ہی ہے کہ کیا کسی نے اس درد کو محسوس کیا جو ایسی صورتحال میں ایک عورت محسوس کرتی ہے اور وہ کس مینٹل ٹروما سے گزر کر خودمیں اتنی ہمت لا پاتی ہے کہ معاشرے کے ان سنگین پہلوؤں کو لوگوں کے سامنے لائے۔ ضروری نہیں اگر کوئی انسان اپنے اندر ہمت پیدا کرنے میں وقت لے تو وہ جھوٹا ہی ہوگا۔

جنسی ہراسانی کی کئی مثالیں ہالی وڈ میں بھی ہم کو ملتی ہیں جہاں کئی مشہور فلمساز و ہدایتکار بھی اس طرح کے مقدمات میں ملوث پائے گئے۔ حال ہی میں معروف ہالی وڈ ایکٹرس ایشلے جڈ نے بھی جنسی ہراسانی کے حوالے سے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا اور کہا کہ یہ واقعہ ان کے ساتھ نوے کی دہائی میں پیش آیا تاہم انھیں یہ بات سمجھنے میں اتنے برس لگ گئے کہ انھیں اس واقعے کو دنیا کے سامنے لانا چاہیے۔ ایسے اور اس قسم کے واقعات سے ہالی وڈ انڈسٹری بھری پڑی ہے تاہم ان کا معاشرہ اور معاشرتی اقدار مختلف ہونے کی وجہ سے ہم ان باتوں کو محسوس نہیں کرپاتے۔ لیکن جیسے جیسے لوگوں میں شعور اور آگہی کے نئے در وا ہورہے ہیں ان میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ ساتھ ہی ماضی میں ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو حال کی روشنی سمجھنا بھی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام میں مددگار ہوسکتا ہے۔

یہاں ہم لفظ استعمال کررہے ہیں جنسی ہراسانی جوکہ اپنے اندربہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے لیکن جنسی ہراسانی کے علاوہ بھی ہراسانی کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں جیسے کہ کام کی جگہ پر ہراساں کرنا جس کو عرف عام میں ورک پلیس ہراس منٹ کہا جاتا ہے۔ ورک پلیس ہراسمنٹ موجودہ دور میں خواتین کو درپیش مشکلات میں سب سے بڑی مشکل کہی جاسکتی ہے۔ بیسویں صدی میں جہاں خواتین تعلیم و ترقی کی راہ میں ناصرف مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں اور گر یہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا کہ مستقبل قریب میں خواتین مردوں سے دو قدم آگے ہی نکل جائیں گی۔

مگر قسمت کی ستم ظریفی کہیں یا معاشرے کی ناہمواریاں کہ خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل مسائل میں ہراساں کیا جانا بھی شامل ہوگیا ہے۔ ایک شعبے میں اگر چار مرد اور ایک خاتون ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور وہ خاتوں اپنی زہانت کے بل بوتے پر مرد حضرات کو یہ احساس دلارہی ہو کہ اس کو ترقی کا حق مردوں سے زیادہ ہے تو ایسی صورتحال میں مرد حضرات اس خاتون کے خلاف خاموش اتحاد قائم کرلیتے ہیں اور اس کو نیچا دکھانے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔

اور ان ہتھکنڈوں سے بھی اگر صورتحال قابومیں نہیں آتی تو اس خاتون کے کردار کو مشکوک کرنا یا اس پر آتے جاتے اس کو ذومعنی باتیں کہنا یا دھمکانا اکثر دفتروں کا عام رواج ہے۔ اس صورتحال کا مزیدار پہلو یہ ہے کہ جب خاتون اس معاملے پر ان سے پوچھ تاچھ کرتی ہے تو وہ یا وہ بات کو مذاق کہ کر ٹال دیتے ہیں۔ یہاں ہمارا سوال معاشرے کے ان آزاد خیال مردوں سے ہے کہ کیا آپ اپنیصلاحیتوں کے بل پر ٓاگے آنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ انسان کو اوپر آنے کی کوشش کرنا چاہیے ناکہ کسی کو نیچے گرا کے خود اس سے اوپر آنا۔ یہ انسانیت کا کون سا درجہ ہے؟ اس بات کا جواب یقینا ایسے مرد ہی دے سکتے ہوں گے یا یہ تحریر پڑھ کر اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ضرور ہوئے ہوں گے ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2