ڈرامہ ”بے دردی“ کے سبق آموز پہلو


”بے دردی“ ڈرامہ کی اول تا آخر قسطیں مکمل کیں۔ اس میں عفان وحید اور ایمن خان کی پرفارمنس کافی متاثر کن رہی، اس کے ساتھ بشریٰ انصاری اور بہروزسبزواری نے بھی بہت اچھا کردار نبھایا۔ کہانی کے مطابق ہاسٹل میں قیام کے دوران عفان وحید کا دوست اس کا ریزر استعمال کرلیتا ہے جس سے ایڈز کا وائرس عفان وحید میں منتقل ہوجاتا ہے جو اس بات سے لاعلم ہے تاہم ان کی والدہ اور ماموں کو بیماری بارے پتہ چل جاتا ہے لیکن جب عفان کی شادی ایمن خان سے ہوتی ہے تو اس سے بھی یہ بات چھپائی جاتی ہے اور یوں ایڈز جیسا خطرناک مرض ایمن خان میں بھی منتقل ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے جسے بالاخر بڑی مشکلوں کے بعد دور کرلیا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کی رائٹر شگفتہ بھٹی اور ڈائریکٹر احمد بھٹی ہیں۔

اس ڈرامے میں مختلف پہلوؤں سے کافی سبق آموز چیزیں سامنے آئیں۔ یہ ڈرامہ بنیادی طور پر ایڈز جو کہ کافی خطرناک بیماری ہے کے حوالے سے آگاہی مہم کے طورپر بنایا گیا ہے اور میرے خیال میں اس آگاہی مہم میں یہ ڈرامہ کافی کامیاب رہا ہے۔ ایڈز کے مریض کے ساتھ معاشرے کے لوگوں کا انتہائی ناروا رویہ اور برا سلوک ہمت ہوتے ہوئے میں بھی بیماری کا مقابلہ مشکل بنادیتا ہے۔ ایڈز کے مریضوں کے حوالے سے عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ایسا مرض غلط کاری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اس کا اس چیز کے ساتھ تعلق ضرور ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہر مریض کو ایسی نظر سے دیکھا جائے اور ہر ایک کے مرض کی وجہ ایسی ہی ہو بلکہ کسی دوسرے کے جراثیم سے بھی ایسا مرض لگ جاتا ہے۔

یہ مرض خون کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ ایسے مریض کے ساتھ اٹھا بیٹھا اور کھایا پیا جاسکتا ہے۔ اس مرض کے ابتدائی اسٹیج میں اس کا مقابلہ آسان اور علاج ممکن ہے جبکہ جراثیم کا ایڈز کی صورت اختیار کر جانے کے بعد اس کامقابلہ مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لئے اپنے ٹیسٹ کرواتے رہنا چاہیے اور کسی چیز کے اثرات معلوم ہونے پر اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

اس ڈرامے میں دوسرا اہم کردار ساس اور بہو کا تھا۔ ساس بسا اوقات بہو کو بیٹی تو دور کی بات انسان بھی نہیں سمجھتی ہیں نتیجہ بہو کے ساتھ بیٹا بھی گنوا بیٹھتی ہیں۔ کیونکہ انسانی فطرت میں یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ ظلم اور غلط رویے کا ساتھ نہیں دیتاہے چاہے کسی جانب سے بھی ہو۔ ایک وقت تک ایسا ہوسکتاہے کہ ساس بیٹے کو اندھیر ے میں رکھ کر بہو کے ساتھ زیادتی کرتی رہے لیکن بالآخر اصل حقیقت عیاں ہوجاتی ہے۔ اور پھر پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچتا ہے۔

تیسرا اہم کردار میاں بیوی کا ہے۔ ایسا ہوسکتاہے کہ آپ کو ایسی بیوی سے سابقہ پڑجائے جو بالکل جاہل، گنوار اور بدسلیقہ و بد اخلاق ہو۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ایسی بیوی کے بارے میں اگر اصلاح کی امید نظر نہ آئے تو بر وقت فارغ کرکے نئی زندگی کا آغاز کیا جائے۔ اسی طرح عورت کو بھی ابتدائی چند مہینوں میں پوری طرح درک کرلینا چاہیے کہ وہ اس شوہر کے ساتھ تمام عمر بتا پائے گی یا نہیں۔

چوتھا اہم کردار والدین اور اولاد کا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والے بچے عموما والدین سے ایسے آزاد ہوتے ہیں کہ ان کی اصل صورتحال والدین کو پتہ نہیں ہوتی ہے خاص کر جب والدین پڑھے لکھے نہ ہوں۔ والدین کو اولاد کے ساتھ مضبوط ربط پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی ہر بات والدین سے شیئر کرسکیں۔ ایسا اگر بچپن سے نہ ہو تو بچے کی عمر کے بڑھنے کے ساتھ تعلقات میں بھی کمی اور دوری پیدا ہوتی جاتی ہے، ایسے میں اگر بچے کسی پریشانی، بیماری یا اذیت میں بھی ہوں تو وہ والدین کو نہیں بتاتے ہیں۔ والدین کا بچوں کے مسائل کو صحیح طرح سمجھ کرحل نہ کرنے اور اپنی مرضی ان پر مسلط کرنے سے یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

پانچویں اہم چیز جس قدر ہوسکے لوگوں کو معاف کردینا ہی اچھی زندگی کی شروعات کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ ماضی میں کیا ہونا چاہیے تھا کیا نہیں اس سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ کیا ہو چکا ہے اور اب اس ہو چکے پر کیا ہونا چاہیے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ماضی کو لوٹایا نہیں جاسکتا ہے، اس لئے ماضی کے پیچھے حال کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے بلکہ حالیہ صورتحال میں رہتے ہوئے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

آپ اگر کسی کے ساتھ برا نہیں کرتے ہیں تو خدا آپ کا ساتھ ضروردیتاہے اور وہ آپ کے احسانات و تحمل مزاجی کو ضائع نہیں ہونے دیتا ہے۔

مولوی ہونے کے ناطے ڈرامے سے تصوف کی چیزیں برآمد کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔ باقی یہ ڈرامہ بہت زیادہ دکھی قسم کی صورتحال کی عکاسی کرتاہے اس لئے ہنسنے مسکرانے کے لئے ایسا ڈرامہ بالکل بھی نہ دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).