گٹھو گنٹھولیا کو غصہ کیوں آ تا ہے !


گٹھو گنٹھولیا کو نہ بیٹنگ کرنی آ تی تھی اور نہ باؤلنگ لیکن ٹیڑھی گردن والے ملک صاحب کی چاپلوسی خوب کرتے تھے اور کارسن کرکٹ گراؤنڈ پر زور چلتا تھا ٹیڑھی گردن ملک صاحب کا، لہذا گٹھو گنٹھولیا بلا شرکت غیرے مطلق العنان، تاحیات کپتان تھا اور ہم سب کو عین الیقین تھا کہ جب تک زندہ رہیں گے گٹھو گنٹھولیا کے عتاب سے دور نہیں جا سکتے۔ گٹھوگنٹھولیا اپنی کپتانی کا رعب اور اتھارٹی قائم رکھنے کے لیے میچ سے ایک دن پہلے کسی ایک کھلاڑی کو بہت بےعزت کیا کرتا تھا اور بے عزتی کا بہانہ ڈھونڈنے کے لیے بہت محنت کرتا تھا مثلاً اپنے بھائی، ملازموں اور ان کھلاڑیوں کو جن کی ٹیم میں جگہ نہ بنتی تھی، کے ذریعے بڑے کھلاڑیوں کی کمزوریاں پکڑتا اور سرعام بے عزتی کرتا۔ اگر کوئی اس بے عزتی سے بچ کر دوسری ٹیم میں کھیلنے چلا جاتا تو پروپیگینڈا کرواتا کہ کالونی میں ایک لڑکی کے ساتھ پکڑے جانے پر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا لہذا بھاگ گیا ہے۔

گٹھوگنٹھولیا کو یقین تھا کہ جو بندہ ٹیم چھوڑ کر گیا ہے وہ زیادہ دیر ناچ گھر ، بارہ دری یا مجیٹھی ہال کی ٹیم میں کھیل نہیں پائے گا کیونکہ وہاں لوگ اسے خواہ مخواہ دخیل سمجھیں گے۔ گٹھوگنٹھولیا کو سرعام یوں پھنسے ہوئے کھلاڑی سے معافی منگوانے کا بہت شوق تھا ۔ معافی مانگتے جب بڑا کھلاڑی گڑگڑاتے ہوئے گٹھوگنٹھولیا کی رحمدلی ، انصاف پسندی ، دریا دلی، سخت گیری ، اصول پرستی اور کرکٹ سے کمٹمنٹ کی قسمیں کھاتا تو گٹھوگنٹھولیا انجانے تفاخر سے پیدا ہونے والی مسکراہٹ کو کنٹرول کرنے اور جعلی خفگی کے اظہار کی درمیانی کیفیت میں بہت چغد دکھائی دیتا۔

ٹیم کے کھلاڑی ہر وقت گٹھوگنٹھولیا کو خوش کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے اور بعض اوقات یہ چاپلوسی اس حد تک بڑھ جاتی کہ گٹھوگنٹھولیا بے ساختہ پکار اٹھتا ، ” اوئے اگر میں نے کپتانی چھوڑ دی تو کیا کرو گے تم چوکنیو !”۔ گٹھوگنٹھولیا جیسا کہ نام سے ہی واضح ہے پست قد تھا اور پست قامت ہونا تو اسکی مریضانہ خود پسندی ہی سے مترشح ہے۔ گاؤں میں گڈے کے نیچے بھاگے چلے جانے والے غیر نسلی کتے کی طرح گٹھوگنٹھولیا بھی بزعم خود کارسن میں کرکٹ کا بے تاج بادشاہ کہلاتا تھا ۔

آپ سوچتے ہونگے کہ وہ خود کس پوزیشن پر کھیلتا تھا ، کیسی باؤلنگ کرواتا تھا ، کہاں فیلڈنگ کرتا تھا تو جناب سنیے گٹھوگنٹھولیا صرف کپتان تھا۔ اگر ٹیم جیت جاتی تو وہ پرائز وصول کرتا اور کسی ایک کھلاڑی کو جو کمزور کھیلا تھا پکڑ کر بےعزت کرتا کہ اس کی وجہ سے میچ ہارنے لگے تھے اور یہ کہ وہ نہ صرف اسے ٹیم سے نکلوا دے گا بل کہ زمین پر ناک سے سات لکیریں بھی نکلوائے گا۔ یہ سن کر بڑوں بڑوں کی جان نکل جاتی تھی کیوں کہ لکیریں نکالنے والا منظر بڑا دلخراش ہوتا تھا خاص طور پر جب کسی شریف اور نیک نام کھلاڑی کی لکیریں نکلوائی جاتیں۔ نیک نام اور شریف لوگ لکیریں نکالنے سے انکار کر سکتے تھے لیکن اس کے لیے ٹیڑھی گردن ملک جی کی چاپلوسی بہت ضروری تھی اور بات صرف چاپلوسی تک ہوتی تو شاید کوئی شریف آدمی کر بھی لیتا۔

ٹیڑھی گردن ملک جی یا ان کے بدقماش دوستوں کے پاس ان دنوں لڑکیاں وغیرہ لے جانے کی جگہ نہیں ہوتی تھی لہذا جو شریف اور نیک نام یوں پھنسا ہوتا تھا اس کے گھر یا دفتر پر عیاشی کی جاتی۔ جو کمزور شخصیت کے شریف تھے وہ ٹیرھی گردن ملک جی کو موقع فراہم کر کے گٹھوگنٹھولیا کے عتاب سے بچ جاتے لیکن وہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق مستقلاً ملک جی کی بلیک میلنگ کا نشانہ بنتے رہتے اور اگر کوئی آنکھیں دکھاتا تو ملک جی عیاشی کی ساری رام کہانی ہر اٹھنے بیٹھنے والے کو یوں سناتے کہ یا تو شریف زادے کا گھر قحبہ خانہ لگتا اور یا اس کا دفتر ۔ سوال یہ ہے کہ آ خر وہ کرکٹ کی خاطر اتنی ذلت مول کیوں لیتے تھے۔ بات صرف کرکٹ کی نہیں تھی بل کہ گٹھوگنٹھولیا اس ٹوہ میں بھی لگا رہتا تھا کہ کس کی بہن کس کے ساتھ فٹ ہے، کون کتنی رشوت لیتا ہے، کس کا لڑکا گاڑی میں پکڑا گیا ہے، کس نے کس کی ملازمہ کو پٹایا ہے، کس نے آمدن سے زیادہ موجیں مارنے کا سا مان رکھا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔

کن ٹٹے ٹائپ لوگوں کے سامنے گٹھوگنٹھولیا یوں سربزانو بیٹھا ہوتا جیسے کوئی عقیدت مند دیوتا کے سامنے اور نہ صرف یہ بل کہ گٹھوگنٹھولیا ان کی ہر حرام کاری کا جواز بھی ڈھونڈ لاتا تھا ۔ نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے وہ کن ٹٹے لوگوں کی ہر قبیح حرکت کو بے ہودہ دلیلوں سے جواز فراہم کرتا ۔ گٹھو گنٹھولیا کی خود ساختہ ، بے ریا خدائی کو سمجھنے کے لیے اس کی محرومیوں کو سمجھنا ضروری ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ گٹھو ہے اور گٹھو ہونا کوئی بری بات نہیں لیکن گٹھے پن پر ساری زندگی جگتیں سننے والا جب طاقت حاصل کرتا ہے تو اسکے فیصلوں میں، بولنے میں ، ہاتھوں کی حرکت میں اور خود پر اندھے اعتماد ایک تحکمانہ رنگ نظر آتا ہے۔

گٹھوگنٹھولیا سے کبھی گھر میں کسی نے سبزی تک نہیں منگوائی کہ کجا یہ کہ بڑے فیصلوں میں شامل کیا جاتا۔ کبھی کسی لڑکی نے گٹھوگنٹھولیا کی تعریف نہیں کی اور اگر کسی نے گٹھوگنٹھولیا کو کچھ دیا تو دفتر کے باہر بٹھا بٹھا کر پہلے اس کی انا کو ٹھیس پہنچائی۔ یہ گٹھوگنٹھولیا کا ڈیفنس میکانزم ہے کہ اس نے تمام محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے بڑے لوگوں کو بے عزت کرنا شروع کردیا ۔ انہیں بدنام کرنا شروع کر دیا ۔ رسوا کرنا شروع کر دیا۔

خیر وقت نے کروٹ بدلی اور آہستہ آہستہ ٹیڑھی گرد ملک جی کے غرور کا بانکپن ٹوٹا۔ سماجی اخلاقیات میں بھی تبدیلی آئی اور کچھ لوگوں نے ملک جی کو ذلیل و خوار بھی کیا لہذا گٹھوگنٹھولیا کی رعونت بھی ماند پڑتی گئی۔ گٹھوگنٹھولیا کا خیال تھا کہ وہ کارسن میں سردیوں کی دھوپ سینکا کرے گا اور مالٹے کھاتے ہوئے لوگوں کو مسائل حل کیا کرے گا لیکن قسمت کی ستم ظریفی کہ اجکل وہ دھوپ میں بیٹھ کر لوگوں کو بتانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ کبھی اس گراؤنڈ میں اس کا طوطی بولتا تھا۔ اگر کوئی اس کی بات پر یقین کر لیتا ہے تو کیک رس کے ساتھ چائے منگوا لیتا ہے ورنہ گٹھوگنٹھولیا اکیلا بیٹھا زمانے کو کوستا رہتا ہے جس نے اس کی قدر نہ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).