اے مثل آفتاب حبیب خان …. صبح ہو گئی ہے!


\"waqarاے مثل آفتاب صبح ہو گئی ہے
ہمارے گھر خوشی در آئی ہے
روئے زمیں پر روشنی پھیل گئی ہے اور
دنیا چمک اٹھی ہے
اے مثل آفتاب حبیب خان ۔۔
صبح ہو گئی ہے
دنیا چمک اٹھی ہے۔۔
اے بادشاہ کے پوتے
تمھاری ماں نے بھلائی کے لیے
بہت کچھ کیا۔۔
تو بھی اس سارگن(گلگت) کو سنوار
اور اس کی دیکھ بھال میں کوتاہی نہ کر

گلگت کا پرانا نام سارگن ہے۔سارگن سے گلت ہوا۔ آج بھی کہیں دورافتادہ دیہاتوں میں پرانے بوڑھے یا دادیاں اس کو سارگن یا سارگن گلت کے نام سے یاد کرتی ہیں۔

قدیم سنسکرتی ادب میں غلاٹا یا گھلاٹا کے نام سے اس آبادی کا تعارف کروایا جاتا رہا۔

سارگن کب آباد ہوا ۔ طلسم کی ہزار داستان موجود ہے۔ آپ کا جس داستان پر جی آئے اس پر یقین کر لیں۔

اس داستان کو پڑھیے جس پر میں اور پروفیسر لیٹنر برابریقین رکھتے ہیں

کسی زمانے میں سارگن میں ایک قوم رہتی تھی ۔جس کی اصلیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس قوم پر ایک بد روح کی حکمرانی تھی جس کا نام شری بدھت تھا۔

\"hunza3\"اس جن نما انسان سے پاکیزہ پریاں تو بیزار تھیں ہی ، نوبت یہاں تک آ چکی تھی کہ مخدوش کردار کی شہرت رکھنے والی پریاں بھی اپنی زندگی اجیرن سمجھتی تھیں۔

قوم کی بیزاری کی بڑی وجہ یہ تھی کہ شری بدھت آدم خور تھا۔ آخر کار آسمان کو رحم آیا اور شری بدھت سے جان چھڑانے کے لیے اسباب بنتے چلے گئے۔سارگن کے سامنے دینیور کے پہاڑوں کے اوپر تین پری زاد آئے ۔ دینیور کے باسی پہاڑوں کی چوٹیوں پر ان تین پری زادوں کو حیرت سے دیکھتے تھے۔ سنتے ہیں کہ یہ پر ی زاد شاید نگر کی بستی سے آئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام جمشید تھا۔ آذر جمشید جو باقی بھائیوں کی نسبت زیادہ خوبصورت اور طاقتور تھا۔

آذر جمشید کے بھائی یہ چاہ رہے تھے کہ جمشید کسی طرح انسانی روپ دھارے اور اس بد روح شری بدھت کو ختم کرے۔ (پری زاد ہوتے ہوئے وہ شری بدھت کو کیوں ختم نہیں کر سکتا تھا یہ وضاحت ہمیں اس داستان میں نہیں ملتی۔ یہاں ہمیں یقین کی روشنی سے سفر جاری رکھنا پڑتا ہے )۔

انہوں نے یعنی آذر جمشید کے بھائیوں نے کہ جن کا اجلاس دینیور کے پہاڑوں کے اوپر جاری تھا ایک تجویز دی کہ کیوں نہ بھائی کو یعنی آذرجمشید کو بچھڑے کے گردے کھلائیں تا کہ یہ انسان بن جائے۔

اس تجویز پر عمل کیا گیا اور بھائیوں نے آذر جمشید کو بچھڑے کے گردے کھلائے جس سے وہ ایک دم پستیوں میں گر کر انسان ہو گیا اور پری زاد خصوصیات سے محروم ہو گیا۔

یہاں پری زاد بھائیوں نے عجیب انسانوں والی حرکت کی۔ وہ یہ کہہ کر بھائی کو دیینیور کے پہاڑ پر چھوڑ گئے کہ وہ سارگن کو اس بے رحم آمر سے بچائے۔

\"hunza-work\"یہاں کہانی ایک دلچسپ کروٹ لیتی ہے۔ آذر جمشید سارگن آ گیا۔ سارگن میں شری بدھت کی لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہو گئی۔ (داستان گو خاموش ہیں کہ آیا آذر جمشید نے لڑکی کو پھنسایا یا محض اتفاقا لڑکی جمشید بھائی کے حسن کی تاب نہ لا سکی۔ لیکن بہرحال ہر دو صورتوں میں ہمارا مقصد پورا ہو رہا ہے یعنی شری بدھت کی ….)

ہو سکتا ہے لڑکی بھی باپ کی آدم خوری والی عادت سے نالاں ہو ۔یہی وجہ ہو گی کہ اس نے باپ کے کچھ راز جمشید کو بتا دیے۔

(ایک روایت یہ بھی ہے کہ شری بدھت انسانوں کے بچے کھاتا تھا۔ ©”سفر ہے شرط“ کی ریکارڈنگ کے دوران مکرم نے انتہائی حیرت سے مجھ سے پوچھا کہ کیا مطلب ؟ کچے کھا جاتا تھا۔ جن لوگوں نے پروگرام دیکھا ان کو یاد ہو گا کہ میں نے مکرم کو کہا ، شریف آدمی اگر وہ پکا کر بھی کھاتا تھا تو یہ بھی کس قدر غلط بات ہے)

خیر داستان آگے چلتی ہے ۔ لڑکی نے کہیں جمشید کی محبت کے سلگتے لمحوں میں بتا دیا کہ اس کے باپ کی جان برف میں قید ہے اور آگ سے ختم ہو سکتی ہے۔ آذر جمشید نے آگ کے بگولے بنائے اور ان کی مدد سے شری بدھت کا صفایا کر دیا۔

اسی شری بدھت کے حوالے سے ہمیں پرانے تاریخی اشعار بھی ملتے ہیں کہ جیسے خوتو نے کہا ،

شری بدھت کہتا ہے کہ ۔۔
میری فطرت سخت ہے ۔
لیکن وہ کس طرح سخت ہے ؟
میں ڈیم کا بیٹا خوتو اس سے فطرت میں کہیں زیادہ سخت ہوں ۔

\"Altitآذر جمشید کی حکومت کا آغاز 643 عیسوی میں ہوتا ہے ۔ 659 عیسوی کو وہ بادشاہت ملکہ کے حوالے کر کے نکل گیا۔ 2013 عیسوی میں وقار احمد ملک ، مستنصر حسین تارڑ کی تلاش میں گلگت پہنچتا ہے۔

نیٹکو سے اترنے کے بعد ٹانگیں سیدھی کرتا ہوں۔ مغرب کا وقت تھا۔ رات کے وقت ہنزہ نگر کے لیے گاڑی ملنے کے امکانات کم تھے۔ لیکن میں گلگت میں رات بسر نہیں کر سکتا تھا۔تارڑ صاحب میری وجہ سے ایک دن کی تاخیر کر چکے تھے۔ اب صبح چار بجے انہوں نے ٹیم کے ساتھ راکاپوشی بیس کیمپ کی جانب چڑھائی شروع کرنی تھی جبکہ میں ابھی گلگت پہنچا تھا۔

آخری گاڑی ہنزہ کے لیے نکل رہی تھی جب میں متعلقہ اڈے پر پہنچا۔ گاڑی میں تمام سیٹوں پر سواریاں موجود تھیں۔ میں نے ہوا میں تیر چلانے کی خاطر خواہ مخواہ پوچھا، کیا ایک سیٹ مل جائے گی میں نے راکا پوشی ویو پوائنٹ نگر تک جانا ہے؟ فوراً کچھ ہنزائی نوجوان باہر آئے۔

پوچھنے لگے آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ لاہور سے آ رہا ہوں۔

پھر ہنزائیوں نے بروشسکی میں کچھ گٹ مٹ کی۔ ایک ہنزائی نوجوان کہنے لگا ، میں آج گلگت رک جاتا ہوں۔آپ میری سیٹ پر بیٹھ جایئے۔

مجھے شرمندگی ہوئی اور اصرار کیا کہ آ پ چلے جائیں میں کچھ اور بندوبست کر لیتا ہوںلیکن وہ بضد رہے۔ گاڑی نے چلنا شروع کیا تو دوسرے ہنزائیوں نے دھکے دے کر مجھے گاڑی میں دھکیلا۔ بھاگتے بھاگتے نیچے رہ جانے والے ہنزائی نے شیشے سے مجھے ٹکٹ پکڑایا اور کہا کہ ٹکٹ ہو گیا ہے پیسے نہ دیجئے گا اور میں گم صم واپس سیٹ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں کوئی ہنزائی نوجوان مجھے سفر ہے شرط کے حوالے سے سرے سے نہیں جانتا تھا۔

ان کو بس ایک بات کا علم تھا کہ مہمان ہے لاہور سے آیا ہے اور ہنزہ جانا ہے۔

آپ ہزار اپنے ساتھ عہد کریں کہ آئندہ ہنزہ کی تعریف نہیں کرنی اس سے دوسرے علاقوں کی حق تلفی ہوتی ہے لیکن ہر دفعہ کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے کہ آپ \"hunza4\"مجبور ہو جاتے ہیں ہنزہ کی تعریف کرنے کے لیے۔

اصل میں مہمان کی قدروقیمت اور محبت ہنزائیوں کی تربیت میں شامل ہے۔

اس تربیت کا دورانیہ ڈیڑھ سو سال کے لگ بھگ ہے۔

آپ کو ہنزہ میں بار بار ایک لفظ سننا پڑتا ہے ، ’ ارے چھوڑیے آپ مہمان ہیں ناں‘ ۔

ایک دفعہ لاہور میں ایک فیسٹیول کے سلسلے میں ہنزہ سے ہمارے بہت سے کاروباری دوست سٹال لگانے آئے۔ میں اور میرے کچھ لاہوری دوست ملنے گئے۔ عجیب تماشا ہوا ، کہیں چائے پی رہے ہیں یا کھانا کھا رہے ہیں تو بل دینے کے لیے ہنزائی دوست اتاولے ہوئے جا رہے ہیں ۔ نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ہے ۔ اور ان کے منہ سے ایک ہی جملہ نکل رہا ہے ۔۔۔ارے چھوڑیے آپ مہمان ہیں ناں

ایک وقت توایسا آیا کہ میں نے ایک ہنزہ کے دوست کو باقاعدہ جھنجوڑ کر کہا ، حضور یہ لاہور ہے ، ہوش میں آئیے آپ ہمارے مہمان ہیں۔

مہمانوں کے حوالے سے یہ جملہ اس قدر ان کے دماغوں میں بیٹھ چکا ہے کہ اندیشہ ہے کہ کسی دن مار کھائیں گے جب کسی کے گھر میں قیام ہو گا اور گھر کے مالک کو کسی سچویشن پر کہہ دیں گے ۔۔چھوڑیے صاحب آپ مہمان ہیں ناں۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments