صحافی چنے بیچیں یا پکوڑے…؟


بحران ہم سے ایسے چمٹے ہوئے ہیں کہ اﷲ کی پناہ… گویا ہمارے ملک میں بحرانوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ ہر تھوڑے وقت یا عرصے بعد کوئی نیا بحران اژدھے کی مانند منہ کھولے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ توانائی، آبی، معیشت کے بحرانوں سے وطن عزیز اور اُس کے عوام خاصے عرصے سے نبردآزما ہیں۔ بلاشبہ کوتاہیاں ہی ان کی وجہ ہیں، ملک عزیز تو ہمہ وقت ہی مشکل اور نازک دور سے گزر رہا ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ نیا اور تازہ اگر کچھ ہے تو وہ میڈیا انڈسٹری کو درپیش معاشی بحران ہے، شعبۂ صحافت جسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، جسے معاشرے کی آنکھ، کان اور زبان گردانا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جو سماج میں پائی جانے والی خرابیوں اور بُرائیوں کی ناصرف نشان دہی کرتا بلکہ اُن کے بہتر حل بھی پیش کرتا ہے۔افسوس آج یہ شعبہ خود بُری طرح بھنور میں پھنسا ہوا ہے اور اسے اس کا بدترین دور کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، اس بحران سے بڑے بڑے میڈیا ہائوسز بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ہیں اور اُنہیں اپنی بقا کا چیلنج درپیش ہے۔

صورت حال اس حد تک سنگین ہوچکی ہے کہ بعض برج اُلٹ بھی چکے ہیں، یعنی کچھ اداروں (خواہ ورقی ابلاغ سے متعلق ہوں یا برقی) کو تالے لگ گئے ہیں۔ اس ضمن میں متواتر اطلاعات آرہی ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ لوگ اپنی زندگی کا انتہائی کٹھن وقت گزار رہے ہیں، کیوںکہ ان میں سے کئی لوگوں کی ملازمتیں جاچکی ہیں اور لاتعداد افراد کے سروں پر نوکری سے بے دخلی کی تلواریں لٹک رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اس حوالے سے حالات مزید سنگین شکل اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب میڈیا کارکنان پر ملازمت سے علیحدگی سے متعلق خبر برق بن کر نہ گرتی ہو۔ میڈیائی اداروں کے مالکان بھی کیا کریں، اُنہیں نہ چاہتے ہوئے بھی سخت فیصلے لینے پڑ رہے ہیں، اسی کا شاخسانہ ہے کہ گزشتہ کچھ ماہ سے لگ بھگ ذرائع ابلاغ کے تمام ہی اداروں میں چھانٹیوں کا ”موسم خزاں” چل رہا ہے، جس کی زد میں آکر ہزاروں میڈیا کارکنان درختوں سے پتّوں کی طرح گررہے ہیں۔ ان اداروں میں طویل عرصہ بلکہ اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ گزار دینے والوں کے بھی ملازمت سے محروم ہونے کے واقعات بہ کثرت دیکھنے میں آرہے ہیں۔ اکثر ادارے اس حد تک مالی بحران سے دوچارہیں کہ کارکنان کو تنخواہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ کئی اداروں میں تنخواہ کی عدم ادائیگی یا اس میں تاخیر کی صورت حال ہے۔ بعض میں تو کئی کئی ماہ سے تنخواہیں ہی ادا نہیں کی گئیں۔ پسینہ تو بہت دُور کی بات صحافتی کارکنان کی اُجرت اُن کا خون خشک ہونے پر بھی بہ مشکل تمام ادا کی جارہی ہے۔

ذرائع ابلاغ سے وابستہ مزدوروں کو شدید مالی مصائب کا سامنا ہے۔ پہلے تو صحافتی کارکنان ملازمت ختم ہوجانے کے کچھ ہی روز بعد دوسرے کسی ادارے میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے، اس دوران مشکلات تو ضرور ہوتی تھیں مگر کچھ ہی عرصے میں وہ دُور بھی ہوجاتی تھیں لیکن اب تو کئی ماہ قبل نوکری سے برخاست ہونے والے صحافتی کارکنان بے روزگاری کے دُکھ اور مصائب تاحال سہہ رہے ہیں، ایسے میں اُن کی زندگی سخت عذاب اور اذیت سے عبارت ہوچکی ہے۔ اُن کے لیے گھروں کا چولہا جلانا ناممکن حد تک مشکل ہوچکا ہے، گھروں میں فاقے دستک دے رہے ہیں، مالک مکان کرایے کے تقاضے کررہے ہیں، بچوں کی اسکول فیسیں کئی ماہ سے ادا نہیں کی جاسکی ہیں۔ آخر کوئی کب تک قرض کے سہارے زیست بسر کرسکتا ہے۔ وہ سب جگہ ہی ملازمت کے لیے کوششیں کرچکے ہیں، لیکن نصیب نے یاوری نہیں کی اور قسمت بھی کیوں مہربان ہوتی، جب میڈیا کی پوری صنعت ہی شدید سمندری طوفان سے نبردآزما ہے تو ایسے میں کون سا ادارہ ہوگا جو انہیں ملازمت فراہم کرے گا۔ یوں جو میڈیا ورکر ملازمت سے محروم ہورہا ہے، اُس کے برسرروزگار ہونے کی اُمید نہ ہونے کے برابر، بلکہ معدوم ہی ہوچکی ہے۔

ایسے میں سوال جنم لیتا ہے کہ صحافتی کارکنان کریں تو کیا کریں۔ کون انہیں انصاف فراہم کرے گا۔ ملازمت تو اُنہیں مل نہیں رہی۔ وہ کسی اور شعبے میں طبع آزمائی بھی نہیں کرسکتے کہ ساری زندگی اسی پیشے سے وابستہ رہے ہیں تو دوسرے شعبوں میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ پھر کیا چنے بیچنا شروع کردیں یا پکوڑے۔ پنکچر کی دُکان کھول لیں یا کسی اور دھندے کو اختیار کریں۔ جس ملک میں بے روزگاری کا عفریت بھرپور طریقے سے تباہ کاریاں مچا رہا ہو اور جہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان حصول ملازمت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہوں، جن کی جوتیاں گھس جاتی ہوں پر نصیب یاوری نہ کرتا ہو اور پھر بالآخر وہ حلال رزق کے لیے کنڈکٹری، بیرہ گیری و دیگر ایسے پیشے اپنانے پر مجبور ہوجاتے ہوں، یا دل برداشتہ ہوکر غلط راہ کا انتخاب کرکے جرائم کی دُنیا میں قدم رکھ دیتے ہوں تو اُس سماج میں صحافتی کارکنوں کا مذکورہ بالا دھندوں کو اختیار کرنا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہ ہوگی۔

اب بھی عالم یہ ہے کہ قریباً تمام ہی اداروں سے مسلسل صحافتی کارکنوں کو ملازمت سے برخاست کرنے کی اطلاعات آرہی ہیں جو یقیناً حکومت کے علم میں بھی ہیں۔ افسوس اس صنعت کو اس بحران سے نکالنے میں حکومتی کردار محض زبانی کلامی دعووں تک محدود ہے۔ کچھ روز قبل میڈیا انڈسٹری کی بحالی کے لیے حکومت کی جانب سے حوصلہ افزا باتیں ضرور کی گئی تھیں لیکن عملی طور پر کچھ نہ کیا جاسکا۔ اسی وجہ سے صورت حال روز بروز مزید ابتری اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ یہ محض چند لوگوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہزاروں خاندان اس سے متاثر ہورہے ہیں، لہٰذا حکومت اس پر سنجیدگی سے توجہ دے۔ ضروری ہے کہ حکومت میڈیا انڈسٹری کو بحران سے نکالنے کے لیے معاونت کرے، اُسے جو مسائل درپیش ہیں، اُن کے حل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).