شادیوں میں سادگی اختیار کرنے کی ضرورت


شادی ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔ اور اسکے ساتھ ہی یہ ایک اہم ذمہ داری بھی ہے۔ اگر مذہب اسلام کی رو سے شادی کی تعریف کی جائے تو یہ ایک معاہدہ ہے جسے ” نکاح ” کہا جاتا ہے ۔ جس کے ذریعے قانون ، ،معاشرہ اور مذہب مرد اور عورت کے درمیان قربت اور ازدواجی تعلق کو قبولیت کے ساتھ قائم کرواتا ہے ۔ جس میں مرد اور عورت دونوں کی رضا مندی لازمی ہوتی ہے ۔ یہ نکاح دونوں کو ایک دوسرے کا شریک حیات بناتا ہے ۔ نکاح کے بعد شوہر پر بیوی کی اور بیوی پو شوہر کی تمام ذمہ داریاں فرض ہوجاتی ہیں ۔
نکاح ہو جانے کے بعد رخصتی کا عمل ہوتا ہے اور بیٹی باپ کے گھر سے رخصت ہوکر شوہر کے گھر چلی جاتی ہے ۔ اور پھر سنت رسول (ص) کی رو سے شوہر کی جانب سے ولیمہ کی تقریب ادا کی جاتی ہے ۔ لہذا مذہب اسلام میں اسی عمل کو شادی کہا گیا جس میں نکاح ، رخصتی اور ولیمہ شامل ہیں ۔
اسلام میں شادی کرنے کے اس عمل میں نہ ہی کوئی مہندی ہے ، نہ کوئی ڈھولکی ، نہ کوئی سنگیت ، نہ ہی کوئی جوتا چھپائی اور دودھ پلائی وغیرہ جیسی اوچھی رسمیں ہیں اور نہ ہی کوئی شادی کے بعد کی دعوتیں ہیں ۔ اسلام میں شادی نہایت ہی سادگی سے کرنے کا حکم ہے ۔ مگر افسوس ! ہمارے معاشرے کے ایک خاص طبقے نے شادی جیسے اہم اور مذہبی فریضے کو ماڈرن کرکے نہایت ہی مشکل بنا دیا ہے ۔ اور اس فریضے کو ادا کرنا ایک عام آدمی کے لئے نا ممکن ہوگیا ہے۔
آج کل شادی کا مطلب 7 سے 8 فنکشن کرنا ہے ۔ جنہیں پاکستانی معاشرے نے پڑوسی ملک بھارت سے اپنایا ہے ۔ ان فنکشنز میں وہ تمام غیر ضروری رسومات ادا کی جاتی ہیں جو ہندو مذہب کے ماننے والے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شادیوں میں بے پناہ ناچ گانے کو فروغ دے کر ماڈرن ہونے کا دکھاوا کیا جاتا ہے ۔ دوسری طرف شادیوں میں 70 طرح کے کھانے رکھ کر امیر ہونے کا دکھاوا کیا جاتا ہے ۔
شادی جیسے سادہ اور اہم اسلامی فریضے کو دکھاوے کی شکل دے کر مشکل بنانے میں اگر ایک طرف ہمارے معاشرے کے لوگوں کا ہاتھ ہے ۔ تو دوسری طرف اس دکھاوے اور فالتو کی شو شا کو پروان چڑھانے میں مارننگ شوز اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں ۔ جو روزانہ صبح 9 سے 11 ڈھول تاشے لے کر ٹیلی ویژن کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں گھستے ہیں۔ اور شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی دوبارہ بڑی نمود و نمائش کے ساتھ کرواتے ہیں ۔ یا پھر نامور ڈیزائنرز کے جوڑے اور زیورات دکھا کر ایک طرف تو امیر طبقات کو شادیوں میں اور زیادہ دکھاوا کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں ۔ جب کہ دوسری طرف ان غریب لڑکیوں کا دل للچاتے ہیں ۔ جن کے ماں باپ شادیوں میں ہونے والے مہنگے اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ۔ اس طرح بیچارے ماں باپ کے لئے ان کی اولاد کی خواہشات کو پورا کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے ۔ اور ان ہی وجوہات کے باعث غریب ماں باپ قرض کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں ۔
شادی بیاہ میں مہنگے کپڑے اور زیور پہن کر فالتو فنکشنز اور رسومات کرنے یا ہزار طرح کے کھانے رکھنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ صرف اور صرف دکھاوا ہے ۔ اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ریس ہے ۔ اس میں نقصان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ کیوں کہ یہ پیسے کا ضیاء ہے اور ایک طرح سے غریب طبقات کے جذبات کے ساتھ کھیلنا ہے ۔ اور سب سے اہم بات کہ اللہ تعالیٰ کے نذدیک بے جا خرچ کرنا اور دکھاوا کرنا سخت نا پسندیدہ عمل ہے ۔
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :
ترجمہ : ” کیا وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا ہرگز نہیں ۔ یہ سارا مال جہنم میں پھینک دیا جائے گا ” ۔ ( سورۃ ہمزۃ آیت 4 ، 3 )
ترجمہ : ” اے ایمان والو ! اپنے صدقات (و خیرات ) احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کردینا جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے ۔ اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تو اس ( کے مال ) کی مثال اس چٹان کی سی ہے ۔ جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر روز کا مینہ برس کے اسے صاف کر ڈالے ۔ ( اسی طرح ) یہ ( ریاکار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہ کر سکیں گے ۔ اور خدا ایسے نا شکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ” ۔ ( سورۃ البقرہ آیت 264 )
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ : ” اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اترائے ہوئے ( یعنی حق کا مقابلہ کرنے کے لئے ) لوگوں کو دکھانے کے لئے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں ۔ اور جو اعمال یہ کرتے ہیں خدا ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے ” ۔ (سورۃ الانفال آیت 47 )
قرآن کریم کی ان آیات سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نمود و نمائش اور دکھاوا بلکل پسند نہیں ہے ۔ جو لوگ دکھاوے کو اپنائیں گے ان کی سخت پکڑ ہوگی اور وہ بڑے عذابوں میں مبتلا کئے جائیں گے ۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت کئی مشکلات کا شکار ہے ۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم شادی جیسے مذہبی فریضے میں وہی سادگی اپنائیں جو نبی کریم (ص) اور صحابہ کرام (رض ) اپناتے تھے اور ہمارے معاشرے میں موجود ہر طبقے کے لئے اس فریضے کی ادائیگی کو آسان بنائیں ۔ اور ہر طبقے کو آپسی مساوات کا پیغام دیں ۔ دنیا بھر میں ایک تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ معاشرے کی تصویر بن کر ابھریں اور بہترین مثال بن کر سامنے آئیں ۔ کیوں کہ تعلیم و ترقی ہی کامیاب معاشرے کی پہچان ہے۔

 اقصیٰ شیخ وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی کی طالبہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).