یوٹرن اور دماغ کی دہی


تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں الفاظ کے معانی بھی تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں۔ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا یہ جاننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا مقدور اتنا ہو کہ ” لسان العصر ” کو ساتھ رکھ سکیں جو آپ کی اصلاح کرتا رہے تاکہ آپ درست کو غلط اور غلط کو درست نہ سمجھ لیں۔ مثلاً اگلے وقتوں میں داغ کو بُرا سمجھا جاتا تھا خواہ چنری میں لگا ہو یا پگڑی میں۔ پھر پتہ چلا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔

اسی طرح یو ٹرن کمزور ذہن کے احمقانہ اور جذباتی فیصلے کے بعد کسی بڑی آفت سے ڈر جانے کے بعد اپنے کہے سے پھر جانے کو کہتے تھے یعنی اس کو کبھی اچھی صفت قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن اب یہ انکشاف ہُوا ہے کہ یو ٹرن تو اچھے ہوتے ہیں۔ یو ٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب رہنما نہیں ہوتا اور جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا، اس سے بڑا بے وقوف لیڈر کوئی نہیں ہوتا۔

یعنی اب یو ٹرن کا مطلب یہ سمجھنا چاہیئے کہ جب آپ کو نظر آ رہا ہو کہ آپ اپنے دعوے کے مطابق کوئی کام نہیں کر سکتے تو یو ٹرن لے لیں یہ آپ کی بہترین سیاسی حکمت عملی کہلائے گی۔ ہم کتنے نادان تھے کہ اپنی بات پر قائم رہنے والے کو لیڈر سمجھتے رہے۔

یہ فرمان وزیرِ اعظم کا ہے لہٰذا اس میں شک و شبہے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ آخر وہ آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں تاہم اس بات کا ہمیں علم نہیں کہ وہ وہاں کیا پڑھتے رہے ہیں۔

اخلاقیات کے معیار بھی بدل چکے ہیں۔ گالی گفتگو کی خوبی بن چکی ہے۔ اب آپ تحریر و تقریر میں جتنی گالیاں بکیں گے اتنا ہی لوگ سر دھنیں گے۔ واہ واہ اور مکرر کا شور اٹھے گا اور آپ لوگوں کے اتنے پسندیدہ بن جائیں گے کہ وہ آپ کے اشارے پر ڈندے اٹھا کر آپ کے ساتھ چل پڑیں گے۔

اگر کسی شخص کو مہذب کہا جائے تو اسے تعریف مت سمجھیں اس کا مطلب ہو گا کہ وہ شخص انتہائی بزدل ہے۔

شہد کو بھی ” مگس کی قے” سمجھنے کی غلطی مت کریں، اس سے مراد وہ مشروبِ خاص ہے جو غالب قرض لے کر پیا کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ان کی فاقہ مستی ایک دن رنگ لائے گی۔

آج تک ہم بھیک کے معنی بھی غلط ہی سمجھتے رہے۔ اب بھیک کو عزت، نفس اور وقار کے منافی خیال کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ بھیک مانگنے سے ننگ و ناموس پر کوئی حرف نہیں آتا۔ کیونکہ اب بھیک کا مطلب ہے امدادی پیکج۔

یہ امدادی پیکج کوئی فرد انفرادی طور پر بھی حاصل کر سکتا ہے اور وسیع تر قومی مفاد میں ملکی سطح پربھی لیا جا سکتا ہے بلکہ ایسی صورت میں اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

وہ زمانے گئے جب پروٹو کول کا لفظ ادا کرتے ہی ایسا لگتا تھا جیسے کونین کی گولی داڑھ تلے آ گئی ہو۔ آنکھوں کے سامنے گاڑیوں کی لمبی قطار اور جبری طور پر روکے گئے، غم و غصے سے بپھرے ہوئے عوام آ جاتے تھے۔ لیکن اب پروٹوکول کا مطلب ہے ہمارے جان سے پیارے لیڈروں کی سکیورٹی۔

ظاہر ہے عوام اپنے لیڈروں سے بے پایاں محبت کرتے ہیں چناں چہ ان کی سیکیورٹی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر انہیں کوئی اعتراض نہیں خواہ کسی نے ایمر جنسی میں ہسپتال جانا ہو، ڈیوٹی پر پہنچنا ہو یا کسی کے جنازے میں شرکت کرنی ہو۔

اس تناظر میں یو ٹرن نہ لینے والا لیڈر یقیناً احمق ہوتا ہے اور اسے لیڈر کہلانے کا کوئی حق نہیں مگر ہم جیسے کم فہم لوگ عجیب مسئلے کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ کس بات کو صحیح سمجھیں اور کس کو غلط، کسی لفظ کا پرانا مطلب سمجھیں یا نئے والا۔

عشق کی لازوال داستان کے مطابق سوہنی کچے گھڑے کے ساتھ دریا پار کرنے کی کوشش میں جان سے گئی اگر وہ یو ٹرن لے لیتی تو بچ سکتی تھی۔ فرہاد تیشے کی مدد سے پہاڑ کاٹنے کی بجائے بادشاہ سے این آر او لے لیتا تو اس مشقت سے بھی بچ جاتا اور شیریں کے حصول کے لئے کوئی نئی ترکیب بھی لڑا سکتا تھا۔

رانجھے جیسا نازک مزاج جس نے کبھی تنکا تک نہ توڑا تھا بارہ برس تک ہیر کی خاطر بھینسیں چراتا رہا۔ اسے چاہئے تھا کہ بھینسیں بیچ کر اپنے گاؤں واپس چلا جاتا اور اپنی بھابیوں سے کہتا کہ میں نے جو دعویٰ کیا تھا کہ آپ سب سے خوبصورت لڑکی کو بیاہ کر لاؤں گا۔ وہ میں نے مذاق کیا تھا۔ آپ چاہے کسی لڑکی سے میری شادی کر دیں یا کسی بھینس سے مجھے قبول ہے۔

قیس بے چارہ تو عشق میں یو ٹرن نہ لینے کی وجہ سے مجنوں ہو گیا تھا۔ اب ہمیں اپنی فکر پڑ گئی ہے۔ تاریخ میں جھانکتے ہیں تو سب الٹا نظر آتا ہے۔ حال پر نگاہ دوڑائیں تو اپنے دماغ کے درست ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ ہم جو ٹھیک سمجھتے ہیں وہ غلط ہے جسے غلط کہتے رہے وہ اصل میں صحیح ہے۔ یا شاید صحیح کا مطلب غلط اور غلط کا صحیح ہوتا ہے۔ اس کنفیوژن میں نوچ نوچ کر سر کے بال آدھے رہ گئے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کے کس بیان پر یقین کریں۔ عشق کئے بغیر ہی قیس والی حالت ہو گئی ہے، اب تو لفظ بھی ہم پر ہنستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).