مذہب اور اخلاقیات: ڈاکٹر خالد سہیل کے جواب میں


اخلاقیات فلسفہ کی ایک شاخ ہے جو اخلاقی اقدار پر بحث کرتی ہے۔ ول ڈیورینٹ کے مطابق زندگی کا فن ، فن کی ذندگی سے کہیں بہتر ہے ، اور اخلاقیات ذندگی کے فن کی داستان ہے۔ بہترین ذندگی کیا ہے؟ نیکی کا کیا فائدہ ہے؟ طاقت کب چنگیزی بنتی ہے؟ کیا ذندگی کا مقصد صرف لذت اندوزی ہے؟ عدل کیا ہے اور وہ ہماری صنعتی ذندگی سے متعلق کیا کہتا ہے؟ مذہب کا اخلاقیات سے کیا تعلق ہے؟ کیا مذہب غریب کے ہاتھوں امیر کے قتل کو نہی روکتا۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہی ملتی کہ کوئی معاشرہ مذہب کے بغیر اخلاقی اقدار کو برقرار رکھ پایا ہو۔ موجودہ زمانے میں اگرچہ فرانس اور امریکہ نے نظام حکومت کو کلیسا سے الگ کرلیا ہے لیکن سماجی بقاء کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے بھی مذہب کی مدد لی ہوئی ہے۔

اخلاقیات پر بات کرنے سے پہلے اس امر کا تعین نہایت ضروری ہے کہ اخلاقیات ہیں کیا ۔ وہ کونسے افعال ہیں جو سماجی بگاڑ کی وجہ بنتے ہیں۔ ازمنہ قدیم سے قتل، چوری، زنا اور ناپ تول میں ہیر پھیر کو قابل تعذیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ گذرتے وقت کے ساتھ معاشرت اور معاشی نظام ارتقا پاتا رہا اور ان عوامل میں جو خرابی اور فساد کی وجہ بن سکتے ہیں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر دور اور معاشرے میں ایسے افعال کے لیے قوانین موجود رہے لیکن طاقتور کو ہمیشہ سے استثناء میسر رہا۔ اخلاقی انحطاط طاقتور قوموں کے زوال کی وجہ بنتا رہا کیونکہ عدل و انصاف سے عاری معاشروں میں ریاست اور اس کی کمزور اکائیوں کے مابین اعتماد کی خلیج پیدا ہوجاتی ہے جو خونخوار بھیڑیے کی مانند ریاست کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دیتی ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل صاحب نے مذہب اور اخلاقیات کے تعلق پر ایک مضمون لکھا جو دراصل ایک مقدمہ تھا مذہب کی آفاقی حیثیت کے خلاف اور لادینیت کی وکالت میں۔ ڈاکٹر صاحب نے پانچ شخصیات، جو ان کے بقول سیکیولرازم کے موجدین میں سے ہیں، کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے اخلاقیات کو فلسفہ سے چھین کر لادینیت کی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی۔ آپ کے اپنے نظریات ہیں اور بجا طور پر آپ ان پر کاربند رہ سکتے ہیں ، لیکن ایک سائیکاٹراسٹ کی حیثیت سے طلب کیے گئے مشورہ پہ ایک نظریہ حیات کے ماننے والوں میں سے کچھ لوگوں کے ذاتی افعال، جو کہ اس نظریہ کے مطابق بھی قابل تعذیر ہیں ، کو مرکز مان کر آپ کو اس کی آفاقیت کو گہنانے کی سعی نہی کرنی چاہیے ۔ جہاں اخلاقیات کو سیکیولرازم کا جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی وہیں وہ اقدار بھی بیان کردی جاتیں جو مذہب نا صرف انسانوں بلکہ ماحولیات سے جمالیات تک کائینات کی تمام اکائیوں سے متعلق تشکیل دیتا ہے تو کیا ہی اچھی بات تھی۔
اسلام ایک ضابطئہ حیات ہے جو ذندگی کے تمام پہلووں کا جامع احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ کوئی افسانوی مذہب نہیں جو قصے کہانیوں پر مشتمل ہو بلکہ اللہ رب الکریم کی طرف سے مبعوث ایک رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے عملی طور پر اپنے وقت کے لوگوں پر پیش کیا جس کی آفاقیت تمام زمانوں کے لیے ثابت ہے۔ اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ یہ سامی ادیان کا تسلسل ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ سامی مذاہب میں ان کے پیروکاروں نے ترامیم کیں جن کے رد کے لیے اسلام لوگوں پر پیش کیا گیا۔ اسلام نے نہ صرف عبادات کا تعین کیا بلکہ ان تمام اخلاقیات کو بحال کیا جو تہذیب و تمدن کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہاں ایک غلط فہمی کا ادراک اور درستی نہایت ضروری ہے کہ مذہب اخلاقیات کے نفاذ کو جنت دوزخ کے ذریعے سے ممکن بناتا ہے اور دنیا میں عملی طور پر کوئی نظام نہی دیتا۔ یہ محض ایک پروپیگنڈہ ہے اور حقیقت کا اس سے کوئی واسطہ نہی۔ نیکی اور بدی کا تصور اور جزا و سزا کے بدلے میں جنت اور جہنم اللہ رب العزت نے اس لیے قائم کیا کہ اس دینا میں طاقتور کے ہاتھوں کمزور کا استحصال ہوتا ہے ۔ اب اگر نظام کمزور کی بقاء کا ضامن نہ ہو تو پھر دو راہیں نکلتی ہیں، ایک تو وہ راستہ جو قتل وغارت گری کی طرف جاتا ہے، جس کا تذکرہ ول ڈیورینٹ بھی کرتا ہے کہ کمزور طاقتور کو قتل کردے یا پھر طاقت چنگیزی کو جنم دے ڈالے۔ دوسرا راستہ وہ ہے جو مذہب دکھاتا ہے کہ اگر کمزور ہے تو بہتری کے لیے جائز طریقے سے کوشش کرے اور اگر طاقتور ہے تو کمزور کے حقوق کا خیال رکھے۔ حقائق کو سچ کی کسوٹی پر پرکھنے سے ہی اخلاقیات کے منبع کا پتا ملتا ہے۔ بلا وجہ کی مبالغہ آرائی کی جاتی ہے کہ مذہب نیکی و بدی کے تصور سے اخلاقیات کے نفاذ میں ناکام رہا، حالانکہ مذہب ہی وہ واحد راستہ ہے جس نے معاشرتی ارتقا کی ترویج کی ہے۔ اسلام بالخصوص حدود کے نفاذ سے اعمال باطلہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ حدود کا نفاذ دراصل بدعملی ہر جرم کا تصور ہی ہے۔ اس نظام میں سزا دنیا میں ہی دی جاتی ہے۔ البتہ گناہ کا تصور جرم کے تصور سے کہیں متصادم نہیں، بلکہ وہ لوگ جو جرم کو قابل گرفت نہیں سمجھتے یا جو اس قدر طاقتور ہیں کہ جرم کی سزا سے بچ نکلنا جانتے ہوں ان کے لیے گناہ کا تصور ایک رکاوٹ ہے۔ گناہ کا تصور ان لوگوں کے لیے بھی ایک سزا کا تصور ہی ہے جو جرم کرکے ثبوت نہ چھوڑتے ہوں کہ جرم کا نظام ثبوت مانگتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو لبرل ازم کے لبادے میں سزاؤں کے اسلامی نظام کو ظلم ثابت کرکے اخلاقی گراوٹ کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔ آزادی رائے کی آڑ میں نفرت انگیزی کو ہوا دی جاتی ہے جس سے نا صرف ایک مخصوص معاشرہ بلکہ گلوبل ویلیج کے تصور میں عالمی امن کوٹھیس پہنچتی ہے۔ یہی شخصی آزادی کی بات ہر دو طرح سے ماحول کو آلودہ کر رہی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور سوچ کی آلودگی۔
ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے تو قانون سازی کی حمایت کسی حد تک کی جاتی ہے لیکن جب بات ذہنی آلودگی کی آتی ہے تو کہا جاتا ہے بے لگام آزادی دی جائے۔ معاشرے اقدار پر قائم ہوتے ہیں اور اقدار کا نفاذ جزا و سزا کے تصور کے بنا ناممکنات میں سے ہے۔
ملحدین جہاد کو لے کر عموما مذہب اور بالخصوص اسلام کی اساس پر نقب زنی کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ شور اسی پر ڈالا جاتا ہے کہ جہاد معاشرتی امن کو پراگندہ کرتا ہے۔ تو جناب پوچھنا یہ تھا کہ کیا اسلام کی آمد سے قبل دنیا امن کا گہوارہ تھی؟ کیا روم کی سلطنت انسانی قتل و غارت پر قائم نہیں تھی؟ سکندر اعظم کس امن کا پرچار کرنے نکلا تھا اور بخت نصر نے کس نظریہ پر خون کی ہولی کھیلی تھی؟ بیسویں صدی کے آغاز سے مانا جاتا ہے کہ لادینیت میں اضافہ ہوا تو کیا اس بات کا جواب مل سکتا ہے کہ اسی صدی میں دو عالمک جنگیں انہی لبرل ریاستوں نے کیوں لڑیں؟ ایٹم بم سے دنیا کو روشناس کرواکے عقل کے ہرچارک لوگوں نے انسانیت کی کونسی خدمت کی؟ جاپان پر ایٹمی حملہ کے وقت کن اخلاقی اقدار کا تحفظ کیا گیا؟ ان جنگوں کا موازنہ جب اسلام کے لیے لڑی جانے والی جنگوں سے کیا جائے تو ایک بات نتھر کے سامنے آتی ہے کہ جہاد ایک منظم جنگ ہے جس کے اصول و ضوابط اسے دوسری جنگوں سے الگ کرتے ہیں۔ اسلامی جنگوں میں مفتوح اقوام کی عبادت گاہوں، بچوں، بزرگوں اور ان خواتین کو جو جنگ کے لیے نا نکلی ہوں کبھی نقصان نہی پہنچایا گیا۔ جبکہ چنگیزیوں کی سیکولر افواج جہاں سے گزر جاتی شہروں کو کھنڈرات میں بدلتی رہیں۔
زیادہ پیچھے کیا جانا موجودہ دور کی جنگوں کو ہی دیکھ لیں۔ ان اقوام، جن کی مدح سرائی ڈاکٹر صاحب کر رہے ہیں ، کی افواج نے نیٹو کے جھنڈے تلے افغانستان اور عراق کی آبادیوں میزائلوں کی رات دن برسات کیے رکھی۔ لاکھوں لوگوں کا قتل عام بھی ان کی انسان دوستی کا بال بیکا بھی نہ کرسکا۔ جناب اگر امریکہ ، کینیڈا ، بیلجیم ، ڈنمارک، فرانس ، اور برطانیہ جیسے چوٹی کے لبرل سیکیولر ممالک نیٹو افواج کی مدد سے عالمی امن کو غارت کرنے کے باوجود اخلاقیات کے ٹھیکیدار ہیں تو پھر سمجھ لیجیے کہ ہاں وہ اخلاقیات جو ان کی منشا کے مطابق ہوں، مذہب ان کے نفاذ سے عاری ہیں۔ ہاں البتہ عدل و انصاف، رواداری، بقائے باہمی، ادب و احترام، معاشرتی و معاشی مساوات، اور انسانی حقوق کی بات کی جائے تو مذہب اس معاملے مین خود کفیل ہیں ، اور ان کے نفاذ کے لیے جنت دوزخ نہی بلکہ اس دنیا میں ہی جزا سزا کا ایک جامع نظام ہے جس پر اگر صحیح معنوں میں عمل در آمد ہوجائے تو یہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔ لیکن بد قسمتی یہی ہے کہ اس نظام کے نفاذ سے لبرل اقدار کو ٹھیس پہنچتی ہے، کیونکہ اس سے یہ دوکانداری ختم ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).