گرم حمام کا حجام اور مسجد کا امام


اپنے لنگوٹی یاروں سے ملنے اس بار جب آبائی محلے گیا تو ایک دوست کے گھر کی گھنٹی بجانے پر آواز آئی۔ وہ نہانے کے لئے گرم حمام گیا ہے۔

ایک عرصے بعد گرم حمام کا سُن کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ آج بھی لوگ گھر پر نہانے کی بجائے گرم حمام کا رُخ کرتے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ یقنی طور پر میرا یار اُن خوش نصیبوں میں سے نہیں ہوگا۔ جنھیں سردیوں میں گیس دستیاب ہو۔

محلے کے ہر کونے کھدرے سے واقف ہونے کی وجہ سے میں اپنے اس لنگوٹیے یار پر گرم حمام پر چھاپا مارنے جا پہنچا۔ جہاں x 3 3 کے حمام (غسل خانہ) میں میرا یار بذریعہ گولڈن ٹوٹی آنے والے گرم پانی کے نیچے راگ ایمن میں گنگنا رہا تھا اور اس گرم پانی کی بھاپ حجام کی دکان میں نتھیا گلی کے بادلوں کا منظر پیش کررہی تھی۔

محلے کی مسجد کے امام صاحب کا خط بنانے والا حجام مجھے دیکھ کر ایسے پیش آیا۔ جیسے میں اُس کا گواچا گھاک (غُمشدہ کسٹمر) ہوں۔ جس کے ردعمل میں خط بنواتے امام صاحب نے اسے جھاڑا کہ جلدی کر کمبختا، جمعہ کی نماز کے بعد شیخ صاحب کی بیوی کا جنازہ پڑھانا ہے اور پھر امریکہ سے آئے میجر صاحب کے بیٹے کا نکاح۔ چوہدری صاحب کی ہمشیرہ کے قُل بھی عصر سے پہلے ہیں۔

جلالی مولانا صاحب کی مصروفیات سُن کر گرم حمام کے اُسترا تھامے حجام سے بھی رہا نہیں گیا اور جواب میں فوراً بولے کہ مولانا صاحب، میں نے بھی خواجہ صاحب کے پوترے کی سنتیں (ختنے ) کرنے جانا ہے اور جن قُلوں پر آپ نے دعا کروانی ہے۔ اس کی دیگیں بھی میں نے ہی پکانی ہیں۔ جس کے لئے آپ شاپر اکٹھے کررہے ہیں۔

گرم حمام میں حجام اور مسجد کے امام کے درمیان ہونے والی نوک جھونک دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ بے شک پاکستان 2022 میں پہلا پاکستانی خلا میں بھیجنے کی منصوبہ بندی کرلے۔ آج بھی نئے پاکستان کے وزیراعظم سے زیادہ مصروف گرم حمام کا حجام اور مسجد کا امام ہے۔ جن کے بغیر آج بھی نا تو کوئی نومود بچہ مسلمان ہوسکتا ہے اور نا ہی کسی مسلمان کی تدفین کی جاسکتی ہے۔

ایک زمانہ تھا (اور ہے بھی) جب ایک ہی بندہ نومولود بچے کی جھنڈ بھی اتارتا تھا اور لگے ہاتھوں نومولود لڑکے کے ختنے (سُنتیں ) کرکے مسلمان بھی کردیتا تھا۔ جس کے بعد رنگ برنگے مربعوں والی زردے کی دیگ بھی یہی نائی (حجام) پکا دیا کرتا تھا۔ اس طرح بچے کو جنم دینے والے والدین کے بعد اس کی شروع ہونے والی زندگی میں ایک اہم کردار محلے کی اِس نائی کا ہوتا تھا۔ جس سے حجامتیں بنواتا بنواتا پیدا ہونے والا بچہ شیو کروانے والا سخت لونڈا بن جاتا تھا۔

یہ سخت لونڈا جب شادی کے قابل ہوتا ہے تو اس کے ولیمے کی دیگیں پکانے کی ذمہ داری بھی اسی حجام کی ہوتی تھی۔ جو کہ اس امید سے ولیمے کی دیگیں پکاتا کہ عنقریب اس کے ہاتھوں سے ہی مسلمان ہونے والے دولہے کے بیٹے کو بھی مسلمان وہی کرے گا۔

بد قسمتی کہیں یا ٹیکنالوجی کی حجاموں کے پیٹوں پر لات۔ پچھلی صدی کے آخری عشروں میں پیدا ہونے والے، اپنے نومولود بچوں کو نائیوں کے ہاتھوں مسلمان کروانے سے کتراتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ نائی سخت لونڈوں کی شیو اور داڑھی والوں کے خط بنانے تک محدو ہورہے ہیں۔ ویسے بھی نومولود بچے بذریعہ نائی مسلمان ہوں یا بذریعہ ڈاکٹر کی سرجری کے، کسی مسلمان کے دھرنوں، توڑ پھوڑ اور حلال و حرام حرکات سے یہ تھوڑی پتہ چلتا ہے کہ اسے نائی نے مسلمان کیا ہے یا ڈاکٹر نے۔ ویسے بھی مسلمان، مسلمان ہوتا ہے۔ چاہے اسے نائی نے مسلمان بنایا ہو یا ڈاکٹر نے۔

ہماری سوسائٹی میں گرم حمام کے حجام سے بھی زیادہ اہمیت مسجد کے امام کی ہے۔ جس کی اذان کے بغیر پیدا ہونے والا کوئی بچہ مسلمان نہیں ہوتا اور نا ہی کوئی مسلمان دفنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو قرآن پڑھانے، دم درود کرنے اور مذہبی مواقعوں جیسے شبرات، بارہ ربیع الاول اور نویں دسویں محرم کے ختم مقامی مسجد کے امام کے بغیر منعقد کروانا ممکن نہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں امام مسجد کو جتنی عزت اور رُتبہ دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ مذہبی قدغن یا اسلامی احکامات نہیں۔ بلکہ اس کی اصل وجہ ہماری دین اسلام سے نا آشنائی اور من حیثُ القوم ہٹ دھرمی ہے۔ جو کہ مسجد کے امام یا مولوی کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ جیسا کہ مشہور مذہبی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا کہنا ہے ہے کہ اسلام میں مولوی کوئی پیشہ نہیں ہے۔ ہر مسلمان کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ نماز پڑھا سکے۔

محلے کے حمام کا حجام ہو یا پھر مسجد کا امام۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس کی وجہ یہ کہ مہنگائی کے اس دور میں ڈاکٹروں کے ذریعے جتنا خرچہ ایک نومولود کو ختنوں کے ذریعے مسلمان کرنے میں آتا ہے۔ اتنے پیسوں میں اس بچے کی نجی اسکول میں رجسٹریشن کروائی جاسکتی ہے۔ جس اسکول کی انتظامیہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی رجسٹریشن کروانے کی تلقین کرتی ہے۔ اسی طرح ہر محلے میں مسجد کے امام کی با آسانی دستیابی ہمیں دین سے قریب رکھتی ہے۔ حالانکہ دین میں نومولود بچے کے کان میں اذان دینے، نکاح اور جنازہ پڑھانے کے لئے مسلمان ہونا لازم ہے۔ مسجد کا امام ہونا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).