بلاول بھٹو اور سماجی رویے


بلاول بھٹو پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم کے فرزند اور پاکستان میں پھانسی پہ چڑھائے جانے والے واحد وزیر اعظم کے نواسے ہیں۔ یہ دونوں شخصیات آج بھی مخالفین میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اس پورے خاندان نے آمریت کے جبر کو سہا ہے۔ یقینا پاکستانی سیاست کی تاریخ میں کوئی بھی جماعت پیپلز پارٹی سے زیادہ روشن خیال یا جمہوری جماعت ہونے کا دعوئی نہیں کر سکتی۔ ذوالفقار بھٹو نے جب 1969 میں اس جماعت کی بنیاد رکھی تو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ عام آدمی کے لیے ایک کشش لیے ہوئے تھا۔

اگر مختصراً اس پارٹی پر نظر ڈالی جائے تو تاریخ کے آئینے میں یہ نظر آتا ہے کہ بانی جماعت کو ایک آمر نے تختہ دار پہ لٹکایا۔ پھر اس کے دو بیٹوں کو بھی پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا۔ اور آج تک کوئی ان کے قاتلوں کو پکڑ نہیں سکا۔ خیر جس ملک میں پہلے وزیر اعظم کے قاتل کو کوئی نہ پکڑ سکا وہاں کوئی اور تو بہت بعد کی بات ہے۔ 2007 کی ایک بھیانک شام اس خاندان کی ایک توانا آواز یعنی بے نظیر بھٹو کو بھی لیاقت باغ میں قتل کر دیا گیا۔ آج گیارہ سال ہونے کو آئے اور محترمہ کے قاتل کو بھی کوئی پکڑ نہ سکا۔ بلاول بھٹو کی عمر اس وقت انیس برس تھی۔ بعد میں اپنی تعلیم مکمل کرنے تک وہ بھی اس جماعت کے چئیرمین بن گئے۔

آج وہ بھی ایک کامیاب سیاستدان مانے جاتے ہیں۔ ساری زندگی باہر رہ کر پڑھائی کرنے والے بلاول کا لہجہ منفرد ہے۔ اور یہیں سے ہماری پستی ذہنیت کا آغاز ہوتا ہے۔ بھٹو خاندان کے اس سلجھے ہوئے نوجوان کو محض اس لیے طرح طرح کے طعنوں، مذاق اور بازاری جگتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ اس کا اردو بولنے کا لہجہ انگریزی ہے۔ اگر کوئی ان پڑھ، جاہل یا گنوار شخص ایسا کرے تو کسی کو شاید اعتراض بھی نہ ہو لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اس قبیل کے لوگوں کی اکثریت اچھی خاصی پڑھی لکھی ہے۔

بلکہ اب تو صحافی کیا اور سیاستدان کیا سبھی اس حمام میں ننگے ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا آزادی اظہار کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے یہاں کسی بھی کامیاب شخصیت کا ٹھٹہ اڑایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پہ اگر آپ بلاول بھٹو کا نام سرچ کریں تو آپ کو ہزاروں بازاری قسم کی جگتیں مل جائیں گی۔ جس کی واحد وجہ ان کا انگریزی لہجہ ہے۔ بعض جگہ ان کو خواتین سے تشبیہ دی جا رہی ہے، (گویا خاتون ہونا بھی جرم ہے ) تو کہیں اس سے بھی گرے ہوئے جملے بولے جا رہے ہیں۔ یعنی کوئی بھی شخص جو ساری زندگی ملک سے باہر رہے اور اس کا اردو بولنے کا لہجہ آپ سے قدرے مختلف ہے تو آپ اسے تختہ مشق بنا سکتے ہیں۔ اگر بات یہاں بھی ختم ہو جاتی تو قبول ہوتا۔ لیکن اس سے بھیانک حقیقت ابھی ایک اور بھی ہے۔

چند دن پہلے ایک چھ سات سالہ بچی کی ایک ویڈیو دیکھی۔ ایسی ویڈیوز آئے روز نظر سے گزرتی ہیں جن میں کوئی پانچ سات سال کا بچہ یا بچی اپنے کسی بزرگ کی عمر کے سیاستدان یا کسی اور شخصیت کے بارے میں بول رہا ہوتا ہے کہ فلاں چور ہے اور فلاں غدار۔ اس ویڈیو میں بھی وہ بچی انتہائی بھونڈے انداز میں بلاول بھٹو کی نقل کرتی نظر آ رہی ہے۔ یعنی ہم نے اب اپنے بچوں کو اسی نفرت کی آگ میں جھلسانے کا سوچ لیا ہے جس میں ہم خود جل رہے ہیں۔

نہ جانے ایسے کون لوگ ہیں جو محض کسی سیاستدان کی مخالفت میں اپنے بچوں کو بھی اس تعصب اور نفرت کے گڑھے میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ خود نہیں تو کم از کم اپنے بچوں کو تو معاشرے کا ایک مثبت شہری بنائیں۔ ورنہ عین ممکن ہے کل آپ کامیاب شخصیت تو بن جائیں لیکن آپ کے مخالفین کے بچے بھی آپ پر ایسے ہی تبصرے کر رہے ہوں جو آج آپ اپنے بچوں کو سکھا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).