نجی جیل


دوسری دفعہ میں بھی یہی کچھ ہوا کہ جب پھٹی تیار ہوئی بادل بھر بھر کر آگئے ایک ڈیڑھ ہفتے میں ہی ستیا ناس کردیا۔ ہری فصل کو اتنا پانی ملاکے کالی ہوگئی۔ سونے پہ سہاگا حکومت نے زرعی ٹیکس بڑھا دیا۔ نقلی زرعی دوائیں دو نمبر بیچ کا نقصان تو پہلے ہی تھا۔ حالات کچھ اس رخ پہ پہنچے کے زمینداروں کے ساتھ ہاریوں کو بھی دل کے دورے پڑنے لگے۔ دھاگے کو دس گانٹھیں دے کر 9 دن بعد لچھی کی شادی پکی کرلی گئی۔ باپو نے لچھمی کے لئے دو چنر یاں دو گھاگھرے لاکے دیے۔

چاندی کے گہنے بھی شہر سے لائے گئے تھے۔ شادی والے دن کئی بیل گاڑیوں میں لدی بارات آن پہنچی۔ لڑکیاں اس سے چھیڑ خانی کیے جارہی تھیں پر لچھمی نے کسی عام لڑکی طرح کبھی شادی کے خواب نہیں دیکھے تھے وہ اپنے باپو کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی تھی۔ گھونگھٹ کی اوٹ سے اس نے اپنے دولہا کو آتے دیکھا تو دل کی دھڑکن یکسر ترتیب ہوگئی۔ وہ سیاہی مائل رنگ والا بھلا جوان دیکھنے میں آیا۔ مسکراتا تو دودھیا دانت ظاہر ہوجاتے۔

وہ اسے پہلی نظر میں ہی اچھا لگا تھا۔ ساری رسمیں ہوجانے کے بعد ہر ایک کے سامنے اخبار کا کاغذ رکھ کر دال چاول بانٹے گئے۔ یہی خوشی کا موحول تھا اب تووہ بھی مطمئن اور مسرور ہوگئی۔ باپو کو دواع کرکے اپنے سسرال گاؤں پہنچادی گئی سب کے سب عورتیں مرد گول گول ناچ کے گاتے بھی تھے۔ لچھمی کو وہ اپنا اور اچھا لگنے لگا تو نہ جانے یہ کیسا رشتہ ہے کہ اجنبی پر دل آجاتا ہے۔ وہ نظر یں جھکائے مسکراتی مہندی کو تک رہی تھی۔

اچانک ہی خبر آئی کہ پانی کی باری پر جھگڑا ہوگیا ہے۔ ماحول میں پراسرار خاموشی چھاگئی۔ سب مرد اپنی اپنی کلہاڑیاں اٹھائے تیزی سے باہر جارہے تھے۔ ایسے میں لچھمی کے دولہا نے بھی ملتجانہ نگاہوں سے لچھمی کو دیکھتے ہوئے جلدی میں اس سے اجازت چاہی۔ حالات کوئی ایسے بھی گھمبیر نہیں تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں کی مہندی تکتے ہوئے شادی میں دولہا کے لوٹنے کا انتظار کررہی تھی۔ ہر بار ہی ہلکی سی چاپ پردہ شرم بوٹی کی طرح شرما جاتی پردہ تو پلٹنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔

ساری رات ہی انتظار میں گزر گئی صبح سویر شادی والے گھر میں عورتوں نے حلوہ پکایا۔ کچھ ہی دیر میں ایک شور سا اٹھا دیکھتے ہی دیکھتے گھر میں ماتم شروع ہوگیا۔ کسی نے روتے ہوئے لچھمی کو اطلاع دی کہ پانی کی باری پر جھگڑا بہت ہی بڑھ گیا کہ ایک دوسرے پر کلہاڑیوں سے وار بھی کیے گئے ہیں۔ کوئی ایسی ہی چلائی کلہاڑی اس کے دولہا کے سرپر لگی جس سے اس کا مغز ہی باہر آگیا ہے۔ اس کا دولہا مرچکا تھا اب اس کو گنجا کرنے کی تیاری ہونے لگی وہ بیہوش ہوگئی۔

رئیس پہنچ گیا جس کو دھرم جی لے کے آیا تھا دولہا تو واپس نہیں آسکتا تھاپر وقت پر پہنچ کے لچھمی کو گنجا ہونے سے بچا لیا گیا۔ وہاں موجود بوڑھے لوگ بہت ہی برا منانے لگے تھے پررئیس کے سامنے کوئی کچھ بول نہیں پایا۔ رامو آخر کب تک چپ رہتا۔ دل کا درد چھپانے سے تو اور بڑھتا جارہا تھا۔ آخر کوئی نہ کوئی رستہ تو نکالنا تھا۔ اس نے سونی کی آنکھوں میں اپنے لئے لہراتا سمندر اچھی طرح سے دیکھ کے محسوس کرلیا تھا۔ سونی کسی پرندے کی طرح بڑی اُڑان لینے سے پہلے پر پھڑ پھڑا رہی تھی۔

وہ دن جلدہی آگیا وہ گھاس کاٹنے نکلی اور واپس نہیں آئی۔ رامو تو ایک کونے میں سرجھکا کے بیٹھ گیا پر سونی کی ماں کو صبر نہ آتا تھا وہ رو رو کر اپنے سر میں مٹی ڈالتی تھی۔ اسے سونی کے بھاگنے کے دکھ سے زیادہ اس کے مسلمان ہونے کا دکھ تھا۔ رامو کی آنکھیں تو بہت ہی پہلے اس پر روکر خشک ہوگئی تھیں۔ رئیس بہت غصے میں تھا۔ رامو کو اس نے بہت ڈانٹا کہ اتنی ڈھیل دی ہی کیوں کہ بھاگ نکلی۔ وہ رامو کو تسلی دے رہا تھا۔

کچھ بھی ہو ہم اپنا بازو واپس لیں گے پر رامو نے صاف انکار کردیا کہ وہ اس کے واپس آنے سے اب کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کے اترے چہرے اور اداسی کو محسوس کرتے ہوئے رئیس نے نوٹوں کی ایک دستی اس کی ہتھیلی پہ رکھی۔ جاؤ جاکر کوئی اور مائی ڈھونڈ و پر خیال رکھنا اتنی سوھنی ناہو کہ کوئی بھگالے جائے۔ رامو کچھ دن غم میں غرق رہنے کے بعد مامی کی مدد سے کسی لڑکی کو بیاہ لایا۔ جیسے ہی مان سنگھ کے زخم ٹھیک ہوئے دونوں کی ملاقات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھاوہیں سے شروع ہوگیا۔

حالات مان سنگھ کے حق میں جارہے تھے۔ سب کو ہی اس سانولی کے چکر کا پتا چل گیا تھا۔ جہاں اس کا باپ رشتے ہی بات چلاتا وہاں کچھ لوگ ان کو خبردار کرنے پہنچ جاتے۔ آخر یہی ہوا کہ مان سنگھ کو خود ہی بلا کے رشتہ دے دیا گیا۔ اب وہ دونوں ہی بیویوں کے ساتھ بہت خوش زندگی گزار رہا تھا۔ حسب ضرورت کسی کو سدھارنا ہوتا تو جوتا ہاتھ میں کرلیتا۔ ان دنوں فصلوں پر کیڑا مار زہر یلی دوائی کا اسپرے ہورہا تھا۔ مان سنگھ کو ہی یہ دوائی اسپرے کرنی تھی وہ وہ صبح ہی صبح نکل گیا۔

شام کو لوٹا تو اسے کچھ چکر سے آرہے تھے۔ ایک بیوی نے چولہے پر چائے رکھ لی دوسری نے توے پر روٹی ڈالنی شروع کی۔ کچھ ہی دیر میں مان سنگھ کا سردرد بہت ہی بڑھ گیا ساتھ ہی اسے یکے بعد دیگر الٹیاں آنا شروع ہوگئیں۔ اسے اتنے چکر آرہے تھے کہ دنیا گھومتی محسوس ہونے لگی تھی۔ شاید اسپرے کرتے وقت منہ پر کپڑا صحیح طرح سے نہیں باندھا تھا۔ مان سنگھ کی یہ حالت دیکھ کر پڑوسی رئیس کی طرف بھاگے اس نے اپنی کارڈرائیور دے کے جلدہی قریبی شہر بھیجا۔

گاڑی کی رفتار بڑھتی رہی اور اُسے اپنی دونوں بیویاں دور ہوتی دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ اندھیرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بھگوان میں ابھی جینا چاہتا ہوں مجھے زندگی دے دے ابھی میں جینا چاہتا ہوں۔ اس کی آواز ڈوب گئی اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ ڈرائیور نے گاڑی واپس گاؤں کی طرف موڑ لی۔ حالات خراب سے خراب ہوتے جارہے تھے۔ جہاں پانی ہوتا لو گ گنا اگاتے ہمیشہ ہی فیکٹری والے بہت دیر کرتے یا پیسے دیتے ہی نہیں تھے۔

زمینداروں کے خوب چکر لگاتے۔ جہاں پانی کی قلت تھی وہاں یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا جاتا تھا کہ زمین خالی پڑی رہتی پانی کے بغیر فصل اُ گائی نہیں جاسکتی تھی۔ بارشیں نہ ہونے سے خشک سالی کا دور دورہ تھا۔ کچھ سالوں سے چلتے ہوئے یہ حالات زمیندار ہاری دونوں کے لئے ہی بہت بدثابت ہوئے تھے۔ زندگی مشکل دور سے گزر رہی تھی بلکہ لنگڑا کے چل رہی تھی۔ اب تو کھانے کے بھی لالے پڑنے لگے۔ نوجوان مگھن ٹی بی جیسی بیماری کا شکار ہوگیا۔

ٹی بی لگنے والی بیماری ہے ساتھ ہی کچھ اور لوگوں کو بھی ٹی بی نے شکار کرلیا۔ ٹی بی کے مریض کے لئے نہ صرف دوا ناغے کے بغیر چاہیے پر مریض کا کھانا پینا آرام بھی ضروری ہوتاہے جو موجود ہی نہیں تھا۔ گاؤں کے ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر ٹکتا ہی نہیں تھا پہنچنے سے پہلے ہی ٹرانسفر کی کوشش کرتا تھا۔ اس طرح ہسپتال اکثر ویران رہتی تھی۔ رامو کے گردے میں پتھری بن گئی تھی۔ تکلیف اتنی شدید ہوتی کہ کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔

شہر کے بڑے ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹر نے کہا پتھریاں بہت زیادہ ہیں آپریشن خطرے والا ہے میں نہیں کروں گا جاکر کراچی سے آپریشن کروائیں۔ رامو کی تو پوری برادری میں سے کسی نے کراچی دیکھا تک نہیں تھا۔ وہاں تک پہنچنے کے لئے اچھے خاصے پیسے کا بندوبست کرنا تھا۔ یہاں تو سب ہی لوگ پیسے دیکھنے کو ترس رہے تھے۔ رامو کے گھر کے سامنے چاچی تکھو کو تو ٹانگ میں ایسا ناسور پیدا ہوا تھا جو کسی دوا درمل سے نہ جاتا تھا۔

اب وہ تو کوئی کام کرنے کے لائق نہیں رہی تھی۔ ہر گھر میں کوئی نا کوئی ٹی بی کا مریض الگ سے تھا۔ رئیس کے حالات بگڑے ہوئے تھے۔ رئیس کو خالی خولی دیکھ کر زمرد بیگم نے طلاق کا مطالبہ شروع کردیا تھا۔ آج صبح ہی برسوں پرانا قرضا ریکور کرنے کے لئے کوآپریٹیو سوسائٹیز والے آن پہنچے یہ دیکھ کے تو رئیس کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ جہاں معمول کے حالات کے لئے بھی پیسہ نہیں تھا اور ان لوگوں کو قرضہ سود سمیت یاد آگیا تھا۔

آنے والے منتیں کررہے تھے کہ سائیں قرضہ واپس کردو ہماری نوکری کو بہت خطرہ ہے۔ یہاں تو زمیندار اور ہاری دونوں ہی قرضوں پر چل رہے تھے۔ اب اکثر ایسا ہونے لگا کے وہ لوگ روز روز آکر قرضے کی واپسی کا مطالبہ کرتے۔ زمرد بیگم نے طلاق لے لی تھی بنگلہ اور جو کچھ اپنے نام کیا تھا سب لے کے چلتی بنی۔ بوڑھے زمیندار کو زمرد کی بیوفائی نے پرزے پرزے کردیا تھا۔ ساتھ ہی جب وہ جوان بیٹوں کو نشے میں ڈوبا ہوا دیکھتا تو پریشان ہوجاتا۔

سارا کچھ اس کا خود کا کیا دھرا تھا۔ ہاری روز ہی قرضہ مانگتے جواب لاکھوں تک جاپہنچا تھا۔ حالات ایسے نہیں تھے کہ یہ قرضہ واپس ملنے کی تو امید ہوتی۔ سناہے زمیندار اخباروں میں شور کررہے ہیں دادا ویرشی نے حقے کا کش لے لیتے۔ پر داد اس سے ہوتا کچھ بھی نہیں ہے۔ شنکر جو باہر سے اخبار پڑھ کے آیا تھا وہ اچھی خبر رکھتا تھا۔ مزید کہا دادا ہمیں اس زمیندار کو چھوڑ کر کسی اور کے ہاں جانا چاہیے یہ اب ہمیں قرضہ نہیں دیتا ہمارے بیمار مررہے ہیں جو زندہ وہ بھی کون سا اچھی زندگی جی رہے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3