نجی جیل


ویرشی کی سفید بھنویں سکڑ گئیں وہ کسی گہری سوچ میں جاتے ہوئے بولا یہ بہت مشکل ہے بیٹا ہم نے زمیندار سے لاکھوں کا قرضہ لے کے رکھا ہے وہ کہاں سے ادا کریں گے۔ وہ ہمیں کہیں جانے نہیں دے گا۔ ویسے بھی ہر جگہ ہی افراتفری ہے۔ کوئی راستہ نکالتے ہیں زمیندار خود برانہیں ہے۔ شنکر کو یہاں سے نکلنے کی جلدی تھی۔ وہ چاہتا تھا یہاں سے نکل کے تو پھر سے اچھے دن آسکتے ہیں ویسے ہی دن جب وہ روز رات کو ڈھول پیٹتے ناچتے گاتے تھے اور زندگی بہت خوبصورت تھی۔

بوڑھا ویرشی گہری سمندر سی سوچ میں ڈوبارہا۔ مرچی کی فصل پک کے تیار ہوچکی تھی۔ مرچی کا پودا اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ عورتیں اور مرد اُ ن کو جھک کے جب پودے سے نکالتے ہیں تو اکثریت کمردرد میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اکثر ہاری اپنے بچوں کو مرچی نکالنے کے کام پہ لگادیتے ہیں کہ پودا اُن کے قد کے حساب سے ہوتا ہے اور اُن کو ایسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اب کی دفعہ بھی ایسا ہوا سب لوگوں نے اپنے بچوں کو اس کام پر لگادیا تھا۔

اُ س دن بھی جب بچے کھیت میں مرچی چننے میں لگے ہوئے تھے تو شہر سے آتی کچی سڑک پر ایک پوٹو ہار جیپ آکے رکی۔ جیپ سے تین افراد نکل کے باہر آگئے۔ دوپینٹ شرٹ والے مرد اور ایک کٹے ہوئے بالوں والی لڑکی تھی۔ تینوں کو ہی دھوپ کے چشمے لگے ہوئے تھے۔ بچے کام چھوڑ کر شہر سے آنے والے لوگوں کو دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ یہ تو چائلڈ لیبر کرانے والے زمیندار کا نام پتہ معلوم کیا چھوٹے بچوں کو اس کام پہ لگارکھا ہے وہ آپس میں اس سلسلے میں بات کررہے تھے۔

ان کا تعلق ہیومن رائٹس والی کسی این جی او سے تھا۔ اس این جی او کو باہر سے امداد ملتی تھی۔ یہ لوگ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پہ آواز اُٹھاتے تھے۔ یہاں تو کھلم کھلا ظلم ہورہا تھا اور ظالم کھلا گھوم رہا تھا۔ ان کے ہاتھ بہت ہی اچھا موقع آگیا تھا۔ ان لوگوں نے بچوں کے مرچی چنتے فوٹو نکالے جو آگے بھیج کے بہترین کارکردگی دکھانی تھی۔ اس دفعہ کچھ دن تک مقامی اخباروں میں بھی رہ سکتے تھے۔ دوسرے دن ہی یہ فوٹو اخبار میں چھپے اور ایک لمبا سلسلہ چل نکلا یعنی روز کے روز اس حوالے سے کوئی نہ کوئی خبر چھپتی تھی۔

وڈیروں کے خلاف دھڑا دھڑ بیان آرہے تھے۔ ایک مہم سی چل نکلی تھی۔ خبر کی بو سونگھتے ہوئے ایک کامریڈ ٹائپ وکیل اس گاؤں میں آنکلے۔ وہ انگیریزوں والا ٹوپلا پہن کے آئے تھے۔ جس کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں پر بڑا ہی اچھا تاثر پڑتا تھا۔ وہ ان کے گھروں میں موجود تھے ہر ایک سے تعارف حاصل کیا تھا۔ باری باری اور مسئلے مسائل بھی پوچھ ڈالے۔ آخر کب تک آپ لوگ اس جیل میں رہو گے۔ وہ معنی خیز انداز میں سب کو باری باری گھور کے دیکھ رہا تھا۔

اور کہا آپ لوگ اس جیل سے نجات حاصل کرلو اب کے انہوں نے فیصلہ ہی سنایا رامونے پلکیں جھپکی وکیل سب مردوں کو باہر نہر کے کنارے لے آیا۔ یہ جیل ہے جیل۔ اپنے دل سے پوچھو اگر آپ چاہو بھی تو کیا یہاں سے کہیں اور جاسکتے ہو؟ یہ کہہ کے اس نے باری باری سب کی آنکھوں میں جھانکا۔ یہ حقیقت تھی وہ اپنی مرضی سے اس زمیندار کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاسکتے تھے۔ سب ہی سوچنے لگے کہ وکیل تو سولہ آنے ہی سچ کہہ رہا ہے۔

ان لوگوں نے زمیندار سے اتنا قرضہ لے رکھا ہے کہ وہ اداہی نہیں کرسکیں گے۔ نتیجے کے طور پر زمیندار ان کو کہیں بھی نہیں جانے دے گا۔ وکیل نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔ وہ تو آپ ٹھیک ہی کہتے ہو ہم کہیں بھی نہیں جاسکتے کسی نے وکیل کو جواب دیا۔ وکیل کو اور جوش آگیا صدیوں سے یہ ہوتا رہا ہے کہ اسکیم کے تحت زمیندار ہاری کو پنجے میں کس کے رکھتے ہیں ان پر ظلم کرتے ہیں ان کو کمزور رکھتے ہیں تاکہ وہ کسی قسم کی کوئی آواز نہ اُ ٹھا سکیں۔

وہ ٹیوی کے اداکاروں کی طرح ٹھیر ٹھیر کے مکالمے بول رہا تھا۔ اب میں آپ کی آواز بنوں گا دیکھنا کیسے اس ظلم کے جہنم سے آپ کو نجات دلاتاہوں۔ میں آپ کو اس قید سے نکالنے آیا ہوں اب یہ آپ پر ہے کہ آپ یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں یا نہیں پر سسک سسک کر مرنا چاہتے ہیں۔ وکیل خاموش ہوا تو شمبھو نے ذرا نروس انداز میں کہا سائیں ہمارا زمیندار اتنا ظالم نہیں ہے۔ بس بس۔ وکیل نے ہاتھ کے اشارے نے اسے زیادہ بولنے سے روک دیا۔

اب سب لوگوں نے محسوس کرلیا تھا کہ وکیل ان کا ہمدرد ہے وہ ان کو اس شکنجے سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ وہ سب لوگ آپس میں مشورہ کررہے تھے کہ اب کیا کرنا چاہیے کس طرف کیسے چلا جائے۔ قرضے سے کیسے جان چھڑائی جائے پر کسی کہ ذہن میں کوئی واضح تصویر نہیں تھی۔ وکیل نے حالات بنتے دیکھ لئے کوئی بھی کھل کر زمیندار کے خلاف نہیں بول رہا تھا پر پھر بھی وہ یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ دیکھو تم لوگ اپنے دماغ سے کام لو آج تک کسی زمیندار نے اپنے ہاریوں کابھلا نہیں چاہا۔

وکیل کے لہجے میں اعتماد بلا بلاکا تھا۔ اس وجہ سے اب شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ میں آپ کو اس نجی جیل سے نکالنے آیا ہوں۔ اب آپ لوگوں کو جلد فیصلہ کرکے بتانا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ وکیل نے دیکھا کے کچھ بڑے ٹولی کی صورت میں اندر چلے گئے ہیں۔ وہ آپس میں کچھ طے کررہے تھے۔ کچھ لوگ وہیں خاموش کھڑے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہ باتیں کرتے ہوئے واپس آگئے۔ اُن لوگوں نے فیصلہ کرلیا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی ہم کریں گے اب ہمیں بتاؤکہ کرنا کیا ہے۔

ان میں سے جو زیادہ بڑی عمر کا لگتا تھا اس نے کہا اور لوگ بھی ہاں میں سرہلانے لگے۔ وکیل مسکرایا ہاں یہ ہوئی نابات اب جاکے آپ بات کو سمجھے ہیں اب سب سے پہلے چندہ کرکے مجھے پیسے دے دیں تاکہ میں کام کی تیاری کرنا شروع کروں۔ سب لوگ اپنے اپنے گھر گئے جس کے پاس جو تھوڑی بہت پونجی تھی وہ لاکے وکیل کے سامنے رکھ دی۔ رئیس ہمیشہ ہی صبح اخبار پڑھ کے ہی گھر سے نکلتا تھا۔ آج کے اخبار نے تو اسے دھلادیا تھا۔ اچھی خاصی سرخی میں اُ س کا نام اور نجی جیل کے بارے میں تفصیلات چھپی تھیں۔

یہ اس کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا جب پتا چلا کہ رات ہی میں اس کے سب ہاری جاچکے ہیں۔ پیچھے کوئی بھی نہیں رہا تھا جس سے حقیقت حال کا کچھ پتا لگتا۔ زمیندار سمجھ ہی گیا تھا کہ کسی نے ان کو بھڑکا یا ہوگا۔ آج کل ایسے واقعات بہت ہونے لگے تھے۔ پر یہ سب کیسے کیوں ہوا یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ عام طور پر ہاری زمیندار کا جھگڑا مختیار کار نمٹاتے ہیں۔ پر اس کے ہاریوں کو وکیل ہائی کورٹ تک لے گیا تھا۔ ہائی کورٹ کے قانون کے مطابق نہ تو زمیندار بلایا جاتا ہے اور نہ ہی صفائی کاموقع دیا جاتا ہے۔

فیصلہ کرکے حکم دے دیا جاتا ہے۔ اس میں اکثر ہاریوں کا قرضہ معاف کرنے کا حکم ہوتا ہے جو لیبر قانون کے تحت ہوتا ہے۔ سب کچھ ایسے ہی ہوا یعنی کورٹ نے ہاریوں کا قرضہ معاف کردیا تھا۔ یہ سارا معاملہ جلد ہی ہوگیا تھا۔ وہ نجی جیل سے نجات پاچکے تھے۔ ایک دن ایسے میں نوجوان ایس ڈی ایم اپنے ساتھ بڑی گاڑیاں لایا۔ زمیندار کی چائے پی اور ہاریوں کے گھروں سے سامان لدواکے لے کے گیا۔ مقامی اخباروں نے اس خبر کو نمایا ں طور پر شائع کیا تھا۔

اس گاؤں کے ہاریوں کو اپنا سامان بھی مل چکا تھا۔ قرضہ بھی معاف ہوچکا تھا پر مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ اب کوئی بھی زمیندار ان کو ہاری رکھنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ آس پاس کے زمیندار سہم گئے تھے کہ کوئی این جی او یا کوئی بھی وکیل آگیا تو یہ لوگ چھوڑ کے چلے جائیں گے کیس جیتنے کے بعد وکیل غائب ہوچکا تھا۔ یہ سب لوگ کوئی اور راستہ نہ دیکھ کے پریس کلب کے سامنے ہی ڈیرا ڈال کے بیٹھ گئے تھے جہاں روز کوئی نہ کوئی گروپ آکے ان کے ساتھ فوٹو کھنچوا کے جاتا تھا اب ان لوگوں کو بدلتی نظروں کے بعد احساس ہوا کہ یوں در بدر پھرنے سے تو وہ نجی جیل بہتر تھا۔ جہاں ان کے گھر تھے۔

شہر میں وہ بالکل ہی بے یارو مدد گار تھے نسل در نسل وہ ہاری چلے آرہے تھے ان میں سے کسی کو بھی کوئی اور کام دھندا نہیں آتا تھا وہ اپنا گاؤں چھوڑ آئے تھے۔ شہر میں کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ وہ ہر جگہ ہاری بننے کے لئے معلوم کررہے تھے پر کوئی ان کو ہاری رکھنے پرراضی نہ ہوتا تھا۔ اب تو چائے چینی تک کی مشکل ہوگئی تھی۔ گاؤں کے ٹھنڈے اچھے ماحول میں رہنے والے شہر کی حبس زدہ ہوا میں بیمار رہنے لگے۔

ہاری زمیندار کا ساتھ صدیوں پرانا ہے۔ یہ ایک مالا کی طرح ہیں اب بری طرح بکھر گئے تھے۔ زمیندار سے پتہ کرواتا وہاں سے انکار ہی ملتا۔ آخر کو ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ واپس اپنے گاؤں چلنا چاہیے جہاں زمیندار بے چینی سے انتظار کررہا تھا کہ کوئی بھی اس کا ہاری بننے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ نوٹ: ناولٹ میں سب کردار فرضی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3