جو کرنا میرے اللہ نے کرنا


میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے ایک بیٹا اپنے باپ کی عظمت بیان کر سکے ہاں البتہ میں ان کے ساتھ گزرے بیس سالوں کے چند واقعات اور یادیں قلم بند کرنا چاہتا ہوں۔ معمولات زندگی میں ذرا بھر خلل آیا اور زندگی کا پیہ پھر اسی رفتار سے دوڑنے لگا۔ لیکن جب ابا جان کی یاد ذہن میں شور مچاتی ہے تو دل خون کے آنسو رونے لگ جاتا ہے اور جب خیال آتا ہے کہ میں کبھی بھی اس عظیم ہستی کی پیشانی کا بوسہ نہیں لے سکوں گا کہ جس پیشانی پر ہمیشہ شفقت اور پیار دیکھا تھا اور نہ کبھی اپنے باپ کو سینے لگا سکوں گا کہ جس کو سینے سے لگا کر دل کو سارے جہاں کی خوشیاں مل جاتی تھیں اور نہ ہی ان کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر سیاست پہ بحث کر سکوں گا تو کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے۔ مگر کسی نے ٹھیک کہا کہ مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔

ابا جان کا اللہ تعالی کی ذات پہ اتنا یقین تھا کہ بھائی کے کہنے پر ماں باپ کو راضی دیکھنے کے لیے سرکاری نوکری سے مستعفی ہو گئے لیکن گھر آنے پہ پتا چلا کہ ایسا تو کوئی ماجرا ہی نہیں تھا۔ ابا جان محنت مزدوری کی خاطر سعودی عرب چلے گئے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آٹھ سال گزارے اس دوران انھوں نے تین حج اور کئی دفعہ عمرہ کی سعادت حاصل کی اس لیے میں اکثر انھیں ابا جان کی بجائے حاجی صاحب کہ کے پکارتا تھا۔

ابا جان کی پہلی شادی اپنی پھوپھی زاد سے 1975 کے لگ بھگ ہوئی لیکن 17 سال کے دوران اولاد نہ ہونے کے باعث لگ بھگ 1987 میں دوسری شادی ہوئی۔ یہ شادی انھوں نے تمام رشتہ داروں اور پہلی بیوی کی رضا مندی سے کی جس کے باعث اللہ تعالی نے ابا جان کو اولاد جیسی نعمت سے نوازا۔

میں 29 نومبر 1998 میں پیدا ہوا اس لحاظ سے میں ان کے ساتھ 19 سال 11 ماہ اور چند دن رہا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو وہ اپنے آباؤ اجداد کے پیشہ زمینداری سے منسلک تھے۔

ان کا سیاست کے ساتھ گہرا لگاؤ تھا ایک دفعہ گاؤں کی سطح پر کونسلر کا الیکشن بھی لڑا لیکن ہار گئے میں نے بڑی دفعہ ہارنے کی وجہ دریافت کی اور ہر دفعہ جواب یہی ملا کہ میرا انتخابی نشان تانگہ تھا جس میں سے گھوڑا نکلنے کی وجہ سے میں ہار گیا۔ ان کی طبعیت میں مزاح کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا وہ ہمیشہ خوش رہتے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے وہ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے

دنیا وچ رکھ فقیرا! انج دا بھین کھلون
تو ہوویں تے ہسن سارے ٹر جاویں تے رون

ان کا مزاج بہت پرسکون تھا وہ بڑے بڑے مسائل کو نہایت ہی عقلمندی کے ساتھ سلجھا دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں میں جو بھی مسئلہ ہوتا لوگ اسے سلجھانے کے لیے ابا جان کے پاس آیا کرتے تھے۔ صبح تہجد کے وقت اٹھ کر مسجد میں جا کر نفل پڑھنا، قران پاک کی تلاوت کرنا اور فجر کی ازان کے بعد باجماعت نماز ادا کرنا ان کا بچپن سے معمول بن چکا تھا ان کا عقیدہ تھا کہ

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

اقبال کی شاعری میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے اور ان کے کافی شعر زبانی بھی یاد تھے۔ ان کے بارے میں لکھنے بیٹھ جاوں تو پوری کتاب لکھ سکتا ہوں مگر ادھر چند باتیں اس لیے گوش گزار کیں کہ اولاد کو سمجھنا چاہیے کہ والدین ان کی پرورش کی خاطر کون کون سے جتن کرتے ہیں ہمیں اپنے والدین کی مشقت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک ایسی نیک اولاد بننا چاہیے جو ان کے لیے دنیا میں صدقہ جاریہ ہو
باقی جو کرنا میرے اللہ کرنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).