آقا حضرت محمدﷺ سے ایک گزارش


کالی کملی والے سردارﷺ، سچ کہتا ہوں کہ آپؐ کو مخاطب کرنے کا نہ تو میرا مقام ہے، نہ حوصلہ، نہ ہمت اور نہ ہی اوقات۔ آپؐ کہاں، میں کہاں۔ میری مجال اور اوقات تو مدینہ کی گلیوں کی گرد سے بھی کمتر، اور وہ خوش نصیب ٹھہرے جنہیں آپؐ کے در کا دیدار اور آپؐ کے شہرِ محبت کی گلیوں کے پھیرے نصیب ہوتے ہیں۔

آپؐ سب کچھ ہیں۔ میں کچھ نہیں۔ بلکہ کچھ نہیں سے بھی نیچے کہیں۔

اپنی تمام تر کمی، کجی اور بے اوقاتی کے باوجود اک وصف، جو مجھ میں بہرحال ہے جو مجھ سے آپ کے دین کا کوئی بھی خودساختہ رہنما نہین چھین سکتا: میں آپؐ کا، اور صرف آپؐ کا اُمتی ہوں۔ اور روزِ قیامت، جب میری ماں بھی مجھے پہچاننے سے انکاری ہوگی، آپؐ کی شفاعت کا اک خیال ہے جو حوصلہ اور ہمت بندھائے رکھتا ہے۔ آپؐ سے نسبت کا بس اک حوالہ ہی تو ہے جو اس بات کی تسلی دیتا ہے کہ اللہ میرے گناہوں، کمیوں، کجیوں، گستاخیوں اور شرارتوں کی باوجود بھی، محشر میں مجھ پر رحمت کرے گا، اور کہے گا کہ ”تم ساری عمر شریر اور گناہگار ہے۔ سفارش مگر تمھاری تگڑی ہے۔ انکار ممکن نہیں۔ جاؤ، بخشے گئے ہو! “

بس یہی اک آسرا ہے، جو آپؐ سے تعلق پر بنیاد کرتا ہے۔ آپؐ سے اُمتی ہونے کا تعلق ہے تو آپؐ کو مخاطب کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

دل بہت دکھی ہے، ذہن پر دباؤ بہت شدید ہے، مایوسی کا گویا اک دائرہ ہے جس سے میں، بحثیت اک پاکستانی مسلمان مسلسل لڑ اور جھگڑ رہا ہوں۔ آپؐ کا اک ادنیٰ امتی تو ہوں، مگر انسان بھی ہوں۔ انسان؛ جو تمام موجود دباؤ، محرومیوں اور رکاوٹوں سے لڑ تو لیتا ہے، سمجھوتا تو کر لیتا ہے، مگر ساتھ ساتھ میں تھکے بھی چلے جاتا ہے۔

تو آقاؐ، میں آپﷺ کا اک پاکستانی اُمتی، آپﷺ سے اپنی اس تھکن کا اظہار کرتا ہوں جو پاکستان میں رہتے ہوئے مجھ پر قابض ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آپﷺ سے سچ کہتا ہوں اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتا ہوں۔

مجھے کہنا ہے کہ میرے وطن میں، میرے معاشرے میں، میرے لوگوں میں، آپﷺ کا دینِ حکمت بہت بدترین طریقے سے مسلسل استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے۔ آپﷺ کا دینِ مُبین میرے وطن کے طاقتوروں اور پھر آپؐ کے دین کا اپنے تئیں علم رکھنے والے، جو خود کو جبہ و دستار کے وارثان بھی کہلواتے ہیں، نے مسلسل اپنے قبضہء قدرت میں رکھا ہوا ہے۔

آپؐ کے دین کا وہ پیغام، جو میرے آقا آپؐ لے کر آئے تھے، وہ نجانے کہاں کھو چکا ہے۔ چرایا جا چکا ہے۔ چھینا جا چکا ہے۔

مجھے سر اور نگاہیں جھکائے یہ کہنا ہے کہ آپؐ کے دین کی شکل پاکستان میں معاشرتی طور پر بگڑ گئی ہے۔ وہ دین جو تاقیامت تمام انسانیت کو ہدایت، رُشد اور روشنی کا زینہ دینے آیا تھا، اسے خود گلے میں رسی ڈال کر آپؐ کے نام لیواؤں نے کنویں میں لٹکا رکھا ہے اور اس کنویں پر پھر اک شدید پرتشدد پہرہ بھی خود دیے چلے جاتے ہیں۔ یہاں کبھی آپؐ کے دین کے نفاذ اور آپؐ کے نظام کی ترویج کے نام پر 1953 لاہور میں پرتشدد ہنگامے ہوتے ہیں تو کبھی 1974 میں یہی ڈول دوبارہ ڈالا جاتا ہے۔

تخت پر بیٹھے طاقتور ریاستی اہلکار، آپؐ کے دین کو شدید بے دردی سے سیاسی اور معاشرتی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اپنے اقتدار کا پہیہ بناتے ہیں۔ بنائے چلے جاتے ہیں۔

آپﷺ کی سنت اور صحیح حدیث کے حکم کے مطابق بھی جو مہذب اختلاف کریں وہ بھی یہاں قتل کر دیے جاتے ہیں۔ گلگت میں فضل وہاب اک کتاب لکھنے کے جرم میں قتل ہو جاتے ہیں۔ مردان کے ڈاکٹر فاروق بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ کراچی میں یوسف لدھیانوی کہ جنہوں نے ساری عمر دین کی خدمت کی، بے رحمی سے گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں۔ عارف حسینی کو اک جھوٹ گھڑ کر قتل کر دیا جاتا ہے۔

حسن جان آپﷺ کے دین کے ہی نام لیواؤں کے تشدد کے خلاف کلمہء حق کہنے کی سزا اپنی زندگی گنوا کر پاتے ہیں۔ علامہ احسان ظہیر الہٰی اک بم دھماکے میں قتل ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کو اپنی زندگی کا خراج دینا پڑتا ہے۔ غامدی پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے اور ان کے اک مصاحب کے چہرے پر گولی ماردی جاتی ہے۔ غامدی، اک مسلمان ہونے کے باوجود، اک اسلامی ملک میں رہ نہیں پاتے۔

ہر اختلاف کرنے والا ڈرتا ہے۔ بھاگ جاتا ہے۔ نہ بھاگے تو قتل کر دیا جاتا ہے۔

میرے ملک پاکستان میں جھوٹ اور افواہ پر غیر مسلم قتل کر دیے جاتے ہیں۔ ہندؤں کی بچیاں پہلے اغوا کی جاتی ہیں۔ پھر انہیں زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے۔ پھر ان کی شادی کی جاتی ہے اور بعد ازاں وہ کراچی کے اک بدنام بازار سے برآمد ہوتی ہیں یا دبئی کی مارکیٹوں میں بٹھا دی جاتی ہیں۔ یہ سب آپﷺ کے دین کے نام لیوا، اک سندھی پِیر کی عین ناک تلے ہوتا ہے۔

میرے ملک میں مسیحیوں کے چرچوں پر حملے ہوتے ہیں اور حملے کرنے والے ان کی ذمہ داری بڑے فخر سے اٹھاتے ہیں۔ نجانے یہ کرتے ہوئے وہ حضرت جعفر بن طیار (رضی اللہ تعالی عنہ) کی نسبت سے دوام پا جانے والے مسیحی بادشاہ، نجاشی کو کیوں بھول جاتے ہیں۔

میرے آقاﷺ، میرے رحمتہ اللعالمینؐ: آپؐ کا نام لے کر میرے ملک میں مظلوم پر مزید ظلم ہوتا ہے۔ گدیاں ہیں، جو ہزاروں پر جبر سے حکمران ہیں۔ آپؐ کے نام لیوا، اپنے تئیں دین کی خدمت کرنے والے سڑکوں پر بیٹھ کر لوگوں میں گالیاں بکتے ہیں، راہیں اور رستے روک کر، عوام کی پراپرٹی تباہ و برباد کر کے، انہیں آگ لگا کر اور کبھی کبھار قتل کر کے، میرے ملک کے شہریوں کو مسلسل اذیت اور تنگی میں رکھتے ہیں، اور ان کے پیچھے، ان کو استعمال کرنے والے بھی آپؐ کے نام لیوا ہیں۔ یہ سب مل کر آپؐ کے دین کا ملک میں اور پوری دنیا میں مذاق بنواتے ہیں، اور شہریوں کو اذیت میں دیکھ کر دانت نکوستے ہیں۔

یہ سب جو میرے ملک کی تاریخ اور اب حال کابھی حصہ ہے، بہت مایوس کیے دیتا ہے۔ خوف ہے کہ کہیں یہ میرے ملک کے مستقبل کا بھی حصہ نہ بن جائے، کیونکہ یہ ہوتا ہوا نظر آ تا ہے۔

کل میرے ملک میں آپﷺ کے میلادِ مبارکہ کی عید ہے۔ رحمت کی اس گھڑی میں آپؐ کو آپؐ کی والدہء ماجدہ کا واسطہ ہے میرے آقاؐ: نظرِ کرم کیجیے گا۔ بہت تھکن ہو چلی۔

آپؐ کا اک مجبور اُمتی،

مبشر اکرم
اسلام آباد، پاکستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).