لاپتہ چاند کیسا ہو گا؟


درد کی انتہا کے بارے جانتے ہو کیا؟ جب کوئی پیارا دنیا سے منہ موڑ جائے تو یہ درد ہو گا، اس کی اخیر نہیں، آپ اس کو دفنا کر مٹی ڈال کر کچھ دن بعد پھر سے دنیا میں مگن ہو جاؤ گے۔ جب کسی ایسے اچانک حادثے سے دوچار ہوجائیں، جس میں آپ کا جسم و جان لہو لہان ہو جائے تو پھر بھی یہ درد کی کیفیت ہو گی اس کی انتہا نہیں، اس کا بھی ازالہ ممکن ہے۔ کیونکہ زخم وقت کے ساتھ ساتھ مندمل ہو جایا کرتے ہیں۔ قیامت سے پہلے قیامت تو دیکھی ہی ہو گی، جب کسی کا کوئی بہت پیارا اس دنیا کو گڈ بائے کہتا ہے تو پھر چاہنے والے پہ قیامت گزر جاتی ہے۔

کبھی کسی ایسی صورتحال سے پالا پڑا ہو کہ جب آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ خالی ہو گیا ہو اور آپ بہت کچھ کہہ دینا چاہتے ہوں مگر کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ کچھ ایسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں کہ جب اس درد پہ مرہم رکھنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچتا بس سوائے صرف ایک احساس کے۔ اس احساس کے ذریعے آپ اپنے جذبات کو اور پیغام کو پیش کرتے ہیں مگر محسوس صرف وہی کرتا ہے جس کے اندر احساس کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہو۔ قیامت کو بھی سہا جا سکتا ہے، افسوسناک صورتحال سے بھی گزرا جا سکتا ہے، خوفناک کیفیات سے بھی نکلا جا سکتا ہے اگر کوئی ایسا کندھا دستیاب ہو جہاں سر رکھ کر چار آنسو بہائے جا سکیں اور دل کے غم کو ہلکا کیا جا سکے۔

حادثات بتا کر نہیں آیا کرتے، کچھ لوگ یوں اچانک زندگی سے بے وفائی کر کے موت کو گلے لگا لیتے ہیں مگر پھر بھی بالآخر صبر کر لیتے ہیں، درد سہتے ہیں، بہت زیادہ تکالیف میں کراہتے بھی ہیں مگر پھر بھی درد کی انتہا تک نہیں پہچ پاتے۔ درد کی انتہا تک جو لوگ پہنچے، انہیں کسی پل سکون نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ وہ گھاؤ کاری ہوتا جاتا ہے، درد میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے اور دردناک صورتحال اپنی اخیر کو جا پہنچتی ہے کہ انسان بلبلا اٹھتا ہے مگر کوئی اسے ایسا کندھا ملتا ہے کہ جسے وہ سہارا جان کر اپنا غم بیان کر سکے اور نہ ہی اس کو ایسا کوئی سامع ملتا ہے، جسے وہ اپنی غم کی روداد سنا سکے اور رہی آزاد میڈیا کی بات تو یہ وہاں جا کر ایسے چپ سادھ لیتا ہے کہ قلم کی سیاہی خشک ہو جاتی ہے، کیمرا کام کرنا چھوڑ جاتا ہے اور مائیک خراب ہو جاتا ہے۔

درد کی داستان اور اس کی انتہا سے گزرنے والوں کی کہانی لکھنے کے لیے لکھاریوں کے پر جلتے ہیں، وہ زمانے کو یہ نہیں بتلا سکتے کہ اس دیس میں ایسے کیسے ہو گیا کہ ایک انسان کو لاپتہ کر دیا گیا اور ایسے گم کر دیا گیا کہ نہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا مگر پھر دل میں امید کی چنگاری سلگتی ہے کبھی اس ظلم کی شام ہو گی اور امید سحر کے طلوع ہوتے ہی وہ ہمارا پیارا واپس لوٹ آئے گا، پھر دل میں یہ کسک اٹھتی ہے نجانے وہ کس حال میں ہو گا اور اس وقت اس پہ کیا بیت رہی ہو گی۔

لاپتہ افراد کے خاندانوں کی داستان سنیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ایسا ظلم وہ بھی ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھلا کیونکر ممکن ہے۔ ان خاندانوں کی حالت زار کو دیکھیں تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ جب بیدار ہوتے ہیں تو ماتم کناں ہوتے ہیں اور اسی اثنا میں ان کی آنکھوں کا پانی خشک ہوتا ہے تو پھر آنکھ تھک کر بند ہو جاتی ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں، ان کی نگاہیں نیلگوں آسمان کو تکتی دن گزار لیتی ہیں اور رات میں تاروں کو گن گن کر جب چاند پہ نگاہ پڑتی ہے تو اندر سے ہولناک کیفیت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے کہ نجانے ہمارا چاند اس وقت کیسا ہو گا؟

کوئی عدالت نہیں، کوئی منصف نہیں اور ظلم تو یہ کہ ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں۔ بس یہی جرم کافی ہے کہ اس دور میں یہ سچ بولتا ہے یہ زمانے کا سب سے بڑا فسادی ہے، اسے قید و بند میں ڈال دو یا مار ڈالو نہیں تو یہ دنیا کو گمراہ کر دے گا، اداروں کو سیاست سے فرصت نہیں، عدالتیں ڈیم بنانے میں مگن ہیں اور تماش بین بس تماشا دیکھے جا رہے ہیں۔ جرم عظیم یہ ہے کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).