جمیل الدین عالی ہمہ جہت شخصیت


جمیل الدین عالی دہلی اور مشرقی پنجاب سے ملحقہ ریاست نواب موہارو خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ بچپن سے جوانی تک انہوں نے نواب زادوں کی زندگی بسر کی۔ جوانی میں ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کے بڑے علاقوں جیسے اُتر پردیش، بہار، دہلی اور بعض دیگر اہم ریاستوں کے مسلم خاندان کراچی ہی میں آباد ہو رہے تھے اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے سو شہر اُجڑے تو کراچی آباد ہوا۔ یہ بڑی حد تک سچ ہے کہ ہندوستان کی مسلم اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ کراچی چلا آیا تھا جس میں جمیل الدین عالی کا خاندان بھی شامل تھا۔

عالی جی نے زمانہ دہلی ہی سے شاعری کا آغاز کر دیا تھا اور ان کے دوہے رفتہ رفتہ توجہ حاصل کرتے جا رہے تھے۔ کراچی میں انہوں نے سرکاری ملازمت کے لئے اعلی امتحان پاس کیا اور مالیات کے شعبہ سے وابستہ ہوگئے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد ایوب خان صدر بن گئے تب انہیں بھی ایوانِ صدر میں اہم ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے طلب کر لیا گیا اور ایک عرصے تک عالی جی ایوانِ صدر میں فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد وہاں سے سبک دوش ہو کر وہ نیشنل بینک آف پاکستان میں اہم تعلیمی اور ثقافتی ذمہ داریاں نبھاتے رہے جس کے ساتھ یونیسکو نے بھی انہیں اہم ذمہ داریاں سونپ دیں۔

اس تمام سفر میں عالی جی شاعری سے جڑے رہے۔ ان کے دوہے، نظمیں، غزلیں اپنا رنگ جماتی رہیں۔ اُردو کے سب سے بڑے راہنما بابائے اُردو مولوی عبدالحق کے ساتھ آخر دم تک اُردو زبان کے فروغ اور اُردو زبان میں تعلیم کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ بابائے اُردو کا پاکستان میں جن شخصیات نے بھر پور ساتھ دیا اور ان کی انتھک جدوجہد میں شریکِ سفر رہے ان میں سرِ فہرست عالی جی کا نام آتا ہے۔ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود عالی جی نے اُردو کالج کے معاملات میں بابائے اُردو کا ساتھ دیا پھر مولوی عبدالحق کی وفات کے بعد اُردو کالج کا انتظام بھی خود سنبھالا۔

ان کی جدوجہد کی وجہ سے اُردو سائنس کالج کا قیام بھی عمل میں آیا اور گزشتہ صدی کی پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اُردو کالج عبدالحق کیمپس سے بڑے بڑے نامی گرامی طلبہ جن میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ایم، آرحسان ودیگر قابلِ ذکر شخصیات شامل ہیں فارغ التحصیل ہو کر نکلے۔ اُردو سائنس کالج نے ساٹھ کے عشرے سے اپنا سفر شروع کیا تو ترقی اورکامیابی اس درس گاہ کی علامت بن گئی۔ عالی جی کی اُردو سے محبت نے ایک اور تاریخی کام سر انجام دیا کہ 2002 ء میں اُردو کالج اور اُردو سائنس کالج وفاقی اُردو یونیورسٹی برائے فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی بن کر اُبھرے۔ اس حوالے سے صدر پرویز مشرف نے جو اُردو یونیورسٹی کے چانسلر تھے عالی جی کو ڈپٹی چئیر سینیٹ بنا کر اپنی ذمہ داریوں میں شریکِ کار کیا۔

جمیل الدین عالی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے شاعر، نثر نگار، کالم نگار، سیاح، ملی نغمہ نگار، سیاست داں، ماہر لسانیات، ماہر مستقبلیات، دانشور اور سماجی راہنما تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ اتنی پہلو دار شخصیت کی بھر پور زندگی میں اتنے اہم واقعات جمع ہیں کہ اگر ان میں انتخاب کر کے ہی ضبطِ تحریر میں لائیں تو ہر واقعہ ایک کتاب بن جائے گا۔ عالی جی کو اللہ تعالی نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا اور اتنی خوبیاں ایک شخصیت میں یکجا نظر نہیں آتیں مگر عالی جی کی خوش نصیبی یہ کہ مردانہ حسن و وجاہت، پاٹ دار سُریلی آواز، ترنم کے بادشاہ، گفتگو کے فن میں یکتا، قلم کاری میں نئی شان، شاعری میں اعلی مقام، نثر نگاری میں باکمال، صحافت میں شائستگی و بے باکی، سیاست میں اُصول پسند، اُردو کے جاں فشار، ملی نغموں کے سرتاج، اعلی منتظم، شفیق باپ اور ہر مستحق اور طلبگار کے مدد گار اتنی خوبیوں سے نوازے گئے تھے کہ وہ ہر طبقے میں ہر دل عزیزتھے، سب کے لئے محترم اور ہر ایک کے لئے عالی جی تھے۔

عالی جی نے شاعری میں جو کارنامے سر انجام دیے اس پر ناقدین اپنی رائے دیتے رہے ہیں اور مزید رائے دیتے رہیں گے۔ مگر عالی جی کی طویل نظم انسان جو انہوں نے پچاس کی دہائی میں شروع کی تھی ساٹھ برس بعد کتابی صورت میں منظر ِ عام پر آئی۔ انسان بلاشبہ عالی جی کی نہ صرف طویل ترین نظم ہے بلکہ اس میں انسانی تاریخ، انسانی نفسیات، انسانی ارتقائی عمل، انسانی منفی مثبت روئیے، انسانی عامیانہ پن، فکری بلندی، فکری پستی، نفرت، حسد، انتقام، عشق، محبت، امتحان، بندگی، اطاعت، احترام، بہادری، بزدلی، فتح و شکست، جنگ و جدل غرض انسان کے ہر عمل، ہر فکر، ہر اقدام اور روئیے کو نظم انسان میں موضوع بنایا گیا ہے۔

عالی جی کی اس طویل ترین نظم پر بہت کچھ لکھا جائے گا اور ان کی اس اعلی شاعرانہ کا وش کو بہت دور تک اور دیر تک سراہا جائے گا۔ عالی جی چار عشروں سے زائد عرصے تک جنگ میں کالم لکھتے رہے جو ”نقار خانے میں“ کے عنوان سے اپنی ایک الگ شہرت رکھتے ہیں۔ عالی جی کی کالم نگاری صحافت، ادب، عالمی حالات اور واقعات کا خوبصورت اورفکر انگیز امتزاج ہوتی تھی۔ عالی جی کے کالم محض کالم نہیں بلکہ زبردست علمی، ادبی، سیاسی، سماجی موضوعات پر ایک بڑا اثاثہ ہے جو آئندہ نسلوں کی بھی رہنمائی کر سکتا ہے۔

اسی حوالے سے عالی جی کا سفر نامہ ”دنیا میرے آگے“ اُردو ادب میں سیاحت کا ایک اہم باب ہے۔ انہوں نے سفر نامے کو عشق و محبت اور پری چہرہ دوشیزاؤں کے جھرمٹ سے نکال کر نادیدہ گلی کوچوں، بازاروں، چوباروں میں لاکھڑا کیا جو جیسا ہے، کیسا ہے اس سے ملوا دیا جہاں گئے اس کی تاریخ جغرافیہ، سیاست، معیشت اور معاشرت سے تعارف کرادیا کہ قاری خود کوسیاح سمجھتا رہا۔ عالی جی کے یوں تو تمام سفر نامے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں مگر آئس لینڈ کا سفر نامہ ایک تاریخی اور ادبی دستاویز بھی ہے۔

ساٹھ اور ستر کے عشروں میں پاکستان کو دو جنگوں سے گزرنا پڑا مگر ایسے میں عالی جی کے قلم نے ان کی حُب الوطنی اور پاکستان سے لازوال محبت کا وہ جادو جگایا کہ ہر گلی، ہرکوچہ، ہر بچہ، بوڑھا اورجوان ان کے ملی نغمے گنگناتا نظر آیا۔ عالی جی کا تحریر کردہ ”جیوے جیوے پاکستان“ مقبول ترین ملی نغمہ ہے۔

عالی جی اس حوالے سے بھی خوش قسمت واقع ہوئے کہ ان کی زندگی ہی میں انہیں بیشتر اعلی تمغات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ادبی محاذ پر وہ چھ سات عشروں تک چھائے رہے، مشاعرے لوٹتے رہے اپنی شاعری اور آواز کا جادو جگاتے رہے اس حوالے سے انہیں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، سعودیہ، بھارت، عرب امارات اور دیگرممالک میں بھی زبردست پذیرائی ملتی رہی اور وہ اعزازات سمیٹتے رہے۔ عالی جی ایک دور میں رکن سینٹ بھی رہے اور انہوں نے جس کامیابی، جانفشانی اور بے باکی سے اس اعلی ایوان کے پلیٹ فارم سے عوام کی ترجمانی کی یہ ایک شاندار مثال ہے۔

عالی جی نے دوران رکن سینٹ تقریباً پاکستان کے تمام اہم موضوعات پر آواز اُٹھائی اور ان کی تقار یر موضوع، مسائل، اعداد و شمار، حقائق اور تجاویز کے اعتبار سے ایک مکمل اور جامع دستاویزات کے مترادف ہیں۔ عالی جی نے اس ایوان سے ان موضوعات پر بھی کھل کر گفتگو کی جس پر بڑے بڑے جید سیاسی راہنما بولتے ہوئے گھبراتے تھے۔

عالی جی کی خود اعتمادی اور اپنے اطراف پر گہری نظر رکھنے کی بیشتر نمایاں مثالیں موجود ہیں ان میں دنیا کے بڑے اور معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ سے ملاقات اور کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنا بڑا اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ امریکی، یورپی اور عرب دنیا کی بڑی سیاسی، ادبی، علمی اور سماجی شخصیات سے ملاقاتیں اور ان کا احوال عالی جی کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ عالی جی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مطالعہ سے بہت شغف رکھتے تھے اور حالاتِ حاضرہ پر پوری نظر رکھتے تھے اس لئے اپنے کالمز میں عالی جی نے ”مستقبلیات“ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو آئندہ حالات اور بدلتے دور کا ایک خاکہ فراہم کرتا تھا۔

یہ موضوع نیا تھا اور اس کو پاکستان میں عالی جی نے ہی متعارف کرایا۔ عالی جی کو پاکستان سے جو عشق تھا وہ سب پر عیاں ہے اس لئے وہ حالات سے پریشان رہتے تھے۔ انہیں جمہوریت سے لگاؤ تھا۔ پاکستان کے مسائل کا حل انہوں نے ہمیشہ جمہوریت اور عوامی اُمنگوں میں تلاش کرنے کی سعی کی۔ عالی جی کی تحریروں میں انسان دوستی، علم دوستی، مساوات اور انصاف کا پرچار ضرور ہوتا تھا۔ اُردو سے عالی جی کی محبت ان کی بابائے اُردو مولوی عبدالحق سے محبت اور احترام سے نمایاں ہوجاتی ہے۔ بابائے اُردو کی طبعیت بہت ناساز ہوئی اور انہیں اسپتال میں داخل کر دیا گیا تو بابائے اُردو بہت بے چین اور مضطرب تھے اور اتفاق یہ کہ اس وقت عالی جی امریکہ گئے ہوئے تھے۔

انجمن ترقی اُردو سے وابستہ سب لوگ بابائے اُردو کے لئے فکر مند تھے۔ عالی جی کو جونہی یہ اطلاع ملی وہ اپنا امریکہ کا دورہ چھوڑ کر فوری کراچی واپس چلے آئے اور سیدھے اسپتال جاپہنچے۔ بس عالی جی کی آمد کا انتظار تھا بابائے اُردو نے ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔ ان کے بعد انجمن ترقی اُردو اور اُردو کالج دونوں عظیم اور قدیم

اداروں کے لئے عالی جی کی خدمات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کے لئے دو تین جلدیں ترتیب دینا ہوں گی۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق کے انتقال کے بعد انجمن ترقی اُردو کے معاملات کو آگے بڑھانے، کتابوں کی اشاعت بڑھانے اور ادارے کو فروغ دینے میں بلاشبہ اُردو ادب کے بڑے نام شامل ہیں مگر ان میں زیادہ فعال اور متحرک عالی جی ہی رہے۔ انجمن ترقی اُردو کی زیادہ تر کتابوں کے پیشِ لفظ ”حرف چند“ کے عنوان سے عالی جی نے ہی تحریرکیے ہیں۔

جس طرح کالم نگاری میں عنوان ”نقارخانے میں“ مقبول ہوا اس طرح ”حرف چند“ پیش لفظ اور مقدمہ میں مقبول ہوا۔ انجمن کے رسائل جو بابائے اُردو کے دور سے شائع ہورہے ہیں جیسے سہ ماہی اُردو اور ماہ نامہ قومی زبان یہ بھی عالی جی کی کاوشوں اور نگرانی کی بدولت آج بھی پورے رنگ ڈھنگ سے شائع ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنا معیار برقرار رکھا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی گوناں گوں مصروفیات اور ذمہ داریوں کے باوجود عالی جی ہر شعبہ کے ہر کام اور ہر ادارے کے ہر مسئلے کو پوری یکسوئی اور سنجیدگی سے دیکھتے تھے اور ان پر توجہ مرکوز کرتے تھے۔

جامعہ کراچی سے ایک خاتون نے عالی جی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اس کے علاوہ وفاقی اُردو یونیورسٹی، مقتدرہ قومی زبان اور دیگر اداروں اور احباب نے بھی عالی جی کی علمی، ادبی، سیاسی، سماجی اور لسانی خدمات کے حوالے سے کتابیں اور مقالات شائعکیے ہیں اور ان کی شاعری اور نثری کاوشوں پر مزید کام کیا جارہا ہے۔

عالی جی کی تمام خوبیوں میں سب سے اہم خوبی ان کی خود داری اور عزتِ نفس کی اہمیت تھی۔ وہ ہر ایک کی مدد کر کے مسرت محسوس کرتے تھے اور کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دکھی ہوجاتے تھے ظاہر ہے ان کے دل میں ایک حساس شاعر کا دل تھا جس نے پوری زندگی غمِ دوراں میں ڈوب کر لکھا۔ اب وہ ہم میں نہیں مگر سب کے دلوں میں زندہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).