شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی لاہور اور شعبہ اردو انقرہ یونیورسٹی ترکی


دوروزہ عالمی کانفرنس

Spring of Wisdom and Love

یہ نومبر کی بہار تھی۔ نومبر دسمبر دو ایسے مہینے ہیں جو کسی ایک تاریخ کو تاریخ کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ چودہ، پندر ہ نومبر بھی ایسے ہی دو دن تھے۔ جو تاریخ کو متاثر کرنے جارہے تھے۔ اگر مجھے اس تاریخ کو چند لفظوں میں قید کرنا ہوتا تو میں تب بھی کلاسیک کا سہارا لیتی۔ چارلس ڈکنز کے شہرہ آفاق ناول کے چند جملے اس کانفرنس کی منظر نگاری کے لئے کافی ہیں۔

It was the best of times…, it was the age of wisdom …, it was
the season of light…, it was the spring of hope….
….

بس ایسا ہی تھا۔ لکھے ہوئے کاغذات سے زیادہ مہمانوں اورمیزبانو ں کے چہرے کی تحریر پڑھی جاسکتی تھی۔ جو محبت اور امن کا پیغام دے رہی تھی۔ جو کہہ رہی تھی کہ ہم آج بھی بو علی سینا، سقراط، بقراط، افلاطون پیدا کر سکتے ہیں۔ یہا ں ادیب نہیں سکالرز اکٹھے تھے۔ اور فلسفیوں سے فلسفے جنم لے رہے تھے۔ اور کتنے ہی نو جوان اذہان تھے جن کی باڈی لینگویج اور چہروں کی تازگی بتا رہی تھی کہ بیج کسی زرخیز زمین میں پودابننے کو تیار ہے۔ پھل کا فیض جاری کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

یہ کانفرنس شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی اور شعبہ اردو انقرہ یونیورسٹی، ترکی کے باہمی اشتراک سے جی سی یونیورسٹی کی تاریخی سرزمین پہ منعقد ہوئی۔ اور حالات اور شخصیات نے اس کو بھی تاریخ کا یاد گارحصہ بنا دیا۔ ”کلاسیک، جدیدیت اور معاصرادبی تقاضے“ اس عنوان کے سائے تلے بہت سے ادبی مباحث ہوئے۔ جن سے اردو کے دیے روشن ہوتے محسوس ہوئے۔ اس کانفرنس کا حسن روایت شکنی بھی تھا۔ اس نے محبت کی جس ریت کا آغاز کیا۔ اس کی مثال محبت میں ہی تلاشی جا سکتی ہے۔ یہا ں مہمان میزبان بھی تھا اور مہمان بھی تھا۔ اور میزبان مہمان بھی تھا۔ دوستی کا یہ احساس گوہر نایاب سے کم نہیں۔ یہ دوستی کی عظیم منزل ہے۔ یہ دوستی کا وہ ماؤنٹ ایورسٹ ہے جو ہر کوئی سر نہیں کر سکتا۔

پہلے دن بخاری آڈیٹوریم اپنی تاریخ پہ ایک بار پھر نازاں نظر آیا۔ جب پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ (وائس چانسلر، جی سی یونیورسٹی) کی صدارت، اور مہمان خصوصی پروفیسرڈاکٹر محمد نظام الدین (چیئر مین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن) کی موجودگی میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی اور پروفیسر ڈاکٹر آسمان بیلن اوزجان نے استقبالیہ کلمات ادا کیے۔

جی سی یونیورسٹی کی سر زمین پہ اس لمحے انقرہ یونیورسٹی، سلجوق یونیورسٹی، قونیہ یونیورسٹی، جامعہ ملیہ دہلی، بھارت، تہران یونیورسٹی ایران، ہائیڈبرگ یونیورسٹی جرمنی، پنجاب یونیورسٹی لاہور، بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، نمل یونیورسٹی اسلام آباد، سرگودھا یونیورسٹی اور دیگرجامعات نے رونق بخشی ہوئی تھی۔ یہ امید کی وہ کرن تھی جس نے طالب علمو ں اور خود اساتذہ میں روشن مستقبل کے دیے جلا و مہکا دیے تھے۔

”قونیہ“ کا نام سنتے ہی جو خیال طلاطم میں آیا۔ وہ تھا رومی اور شاہ تبریز کا، وہ تھا ”عشق کے چالیس اصول“ اور ایلف شفق کا۔ جس نے تخیل کی وادیوں کو یو ں مہکا دیا جیسے وہ سب چل کر یہا ں پہنچ گئے ہوں۔

”تہران، ایران“ کانام وہاں کی تاریخ کے نشیب فراز اجاگر کرتا، لمحہ بھر میں اک جھونکے کی طرح خیال اور نگاہ میں گزر گیا۔ جس نے اس کو دنیا بھر کے آرٹ کے مد مقابل کھڑا کر دیاتھا۔ بھارت سے یادوں سے اتنے قصے ہیں کہ شہر زاد کی راتیں کم پڑ جاتی ہیں۔

”جرمنی“ سے عطیہ فیضی کی یاد آگئی۔ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کا ادب اداس کر گیا۔ گو یا ہر ملک ہر شہر اپنا رنگ اور اپنی روایت ساتھ لے کر آیا تھا۔ الفاظ اپنی جادو گری کر ہی رہے تھے۔ مگر ملاقاتو ں کی، براہ راست ملنے کی سحر انگیزی اس سے بڑھ کر تھی۔ ہاتھ میں پکڑے مقالوں سے زیادہ جاندار تحریر پرتپاک چہروں پہ لکھی ہوئی تھی۔ اک نئی تحریر سب دل پہ لکھ کر لے گئے ہیں۔

کانفرنس کے چیدہ چیدہ شرکاء میں ترکی سے ڈاکٹر نوریہ بیلک، ڈاکٹر خاقان قیومجو، ڈاکٹر آیکوت کشمیر، ڈاکٹر رجب درگون، ڈاکٹر اشرف کامل، ڈاکٹر عقیلہ بشیر، ایمل سلیم، داؤد شہباز، مصطفی کمال۔ جرمنی سے ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ، سرورغزالی، ایران سے ڈاکٹر علی بیات، ڈاکٹر کیومرثی، بھارت سے ڈاکٹر شمیم حنفی، انیس اشفاق اور پاکستان کے تمام شہروں، خیر پور سے ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر صوفیہ یوسف، ڈاکٹر طارق ہاشمی، کراچی سے اسد محمد خان، مبین مرزا، ملتان سے ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر ابرارعبدالسلام، ڈاکٹر قاضی عابد، فیصل آباد سے ڈاکٹر طاہرہ اقبال اور اسلام آباد سے ڈاکٹر شاہد کامران، حمید شاہد، اختر رضا سلیمی، ڈاکٹر عابد سیال، لاہورسے، پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر ناصر عباس نئیر (ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ) ، پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر رفاقت شاہد، محمد عاصم بٹ شامل تھے۔

اس کے علاوہ جی سی یونیورسٹی کی اپنی آغوش علمی سے ڈاکٹر اقبال شاہد (ڈین فیکلٹی لینگوئجز، اسلامک اسٹڈیز ) نے اظہار تشکر پیش کیا۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے ایک سیشن کی صدارت کے فرائض سر انجام دیے، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر اصغر ندیم سید، مرزا اطہر بیگ مہمانان ِاعزازاور نظامت کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر نسیمہ رحمان، ڈاکٹر الماس خانم، ڈاکٹر فرزانہ ریاض، ڈاکٹر رضیہ مجید، عمران فیروز، ڈاکٹر سفیر حیدر، احتشام علی، ارسلان راٹھور، ڈاکٹر محمد سعید، ڈاکٹر شائستہ حمید، ڈاکٹر مصباح رضوی نے بہت خوش اسلوبی سے سر انجام دیے۔

کانفرنس کے دوسرے روز لاہو ر میں ایک ریلی کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہو گئی۔ لیکن یہ اس کانفرنس کے لئے بہت سود مند ثابت ہوا کیونکہ اب صرف عاشقان اردو کا راج تھا۔ عمارت کا رومانس اپنے جوبن پہ آ گیا۔ سب ایک دوسرے کی بات سن سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے۔ سلفی گروپ کی کمی ہو گئی تھی۔ مختلف ممالک کے سکالرز ایک دوسرے سے بھر پور تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ نئے پروجیکٹس، محبت و دوستی کی نئی راہیں ہموار ہو رہی تھیں۔ نئے عزم کی کلیاں کھل رہی تھیں۔ ایک دوسرے کے کام سے آگاہی کے در کھل رہے تھے۔ ایک آزاد فضا میں نئی سوچ کی لہریں دور دور تک اپنی تاثیر لئے جا رہیں تھیں۔

اس روز شام کو یہ دو روزہ کانفرنس جی سی یونیورسٹی سحر انگیز زمین پہ بہت سی یادوں سمیت ختم ہو گئی۔ اس میں پڑھے جانے والے مقالہ جات کو جلد جی سی یونیورسٹی کتابی صورت میں شائع کر دے گا۔ اور اس سے بوئے بیج مستقبل میں کسی نئی تاریخ کو رقم کریں گے۔ یہ دو دن یادوں کی وادیوں میں تادیر مہکیں گے۔ اور اس کا فیض نئی نسل تک پہنچے گا۔
اس کامیاب کانفرنس پہ جی سی یونیورسٹی اور انقرہ یونیورسٹی ڈھیروں مبارک کے مستحق ہیں۔

It was the best of times…, it was the age of wisdom …, it was
the season of light…,it wasthe spring of hope.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).