ساؤتھ ایشین وومن ڈاکٹر آف نارتھ امریکہ اور پاکستانی قانون دان کے درمیان فیس بک چیٹ


دقیانوسی معاشرے میں ‌ مردوں ‌ کے ذہن میں ‌ خواتین کے گنے چنے کردار ہیں۔ وہ ان کو یا تو میلے سے کپڑے پہنی ہوئی ماں کی طرح دیکھتے ہیں جس میں ‌ سے ہمیشہ لہسن اور پیاز کی بو آرہی ہو، یا پھر وہ کوئی روتی دھوتی بے چاری ہو۔ وہ بے چاری غریب لڑکیاں ہیں جن کے جہیز کے لیے چندہ جمع کیا جائے یا ان کو معاشی سہارا دینے کے لیے بیوی بنانے کی درخواست کی جائے۔ وہ طوائف کو بھی سمجھ سکتے ہیں لیکن ایک نارمل، تعلیم یافتہ یا خود سے زیادہ کامیاب خاتون کو سمجھنا ابھی کافی لوگوں ‌ کی سمجھ کے باہر ہے۔

ایک کشمیری خاتون کے اپنے شوہر سے اچھے تعلقات نہیں تھے اور ان کا کورٹ میں ‌ طلاق کا کیس چل رہا تھا۔ وہ اپنے دو بچوں ‌ کے ساتھ ماں باپ کے گھررہ رہی تھیں۔ اس دوران ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ ان کے جنازے میں ‌ کافی لوگ آئے اور ان خاتون کے سسرال والوں نے ان سے بھی آنے کی درخواست کی۔ ان کے ماں باپ نے سمجھا بجھا کر بھیج دیا کہ دنیاداری کے لیے شکل دکھا دیں۔ وہ ایک بت کی طرح خاموشی سے سب کو دیکھ رہی تھیں۔ باقی خواتین چیخ چیخ کر رو رہی تھیں اور سینے کوٹ رہی تھیں۔ ان کو جھنجوڑا کہ تم بھی روؤ۔ وہ اٹھ کر بھاگیں اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں اور سب ان کو سہارا دینے کی کوشش کرتے رہے۔ اب سب کو سب کچھ نارمل لگ رہا تھا۔

اس دی گئی اصلی کہانی میں ‌ یہ بیرسٹر کارڈیالوجسٹ کے کردار کی خواتین کو سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ اس نے اپنے اردگرد ایسا کردار نہ ہی دیکھا ہے اور نہ ہی اس کو اس کا تجربہ ہے۔ وہ صرف اپنی ماں کو، اپنی بیوی کو اور ان خواتین کو ہی جانتا ہے جن بیچاریوں کے کیس عدالت میں ‌ چل رہے ہوں۔ وہ خود کو، اپنی تعلیمی کامیابی کو اور اپنے خیالات کو بہت اہم سمجھتا ہے اور بالکل اجنبی لوگوں کو اپنے مضامین دکھا کر متاثر کرنے کی کوشش میں ‌ ہے۔

جن لوگوں ‌ کو آپ کے موضوع میں ‌ دلچسپی ہوگی، وہ پڑھیں ‌ گے اور اگر مناسب سمجھیں ‌ گے تو فیڈ بیک بھی دیں ‌ گے۔ اس کو نہیں ‌ معلوم کہ کارڈیالوجسٹ نے دو فیلوشپ کی ہوئی ہیں، سائنسی جرنلوں ‌ میں ‌ آرٹیکلز لکھے ہیں، وہ سارا دن لوگوں ‌ کے دلوں ‌ کی شریانوں ‌ میں ‌ اسٹینٹ ڈال کر گھر آئی ہے۔ وہ آپ کے عہدے، آپ کی تعلیم یا آپ کے مضامین سے متاثر نہیں ‌ ہے۔ اس بیرسٹر کو نہیں ‌ معلوم کہ وہ آن لائن دیگر خواتین سے فلرٹ کرکے اپنی بیوی سے بے وفائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ وہ اس عورت کو عزت نہیں ‌ دے رہا جس نے اپنی زندگی اس کے ساتھ وابستہ کی ہے، جو اس کا گھر جوڑ کر بیٹھی ہے اور اس کے بچے پال رہی ہے۔ وہ اپنی بیوی کو اتنی بھی اہمیت نہیں ‌ دیتا کہ اس کے ساتھ اپنی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے۔ خاندانوں کے درمیان طے کی ہوئی شادیوں میں ان لوگوں ‌ کو اپنی بیویوں سے نارمل تعلق رکھنا نہیں آتا۔ ان کو نہیں ‌ پتا چلتا کہ اس تعلق کی کامیابی بہت محنت کا کام ہے۔

بیرسٹر ایک ایسے غبارے میں ‌ رہ رہا ہے جہاں اس کو بہت طاقت اور اہمیت حاصل ہے۔ اس کو یہ سمجھ نہیں ‌ کہ جب کارڈیالوجسٹ نے صاف جواب دیا تو اس کو شروع میں ‌ ہی معذرت کر کے رخصت ہوجانا چاہیے تھا۔ اس گفتگو سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس کو سمجھ نہیں آرہا کہ کارڈیالوجسٹ اس کے آرپار دیکھ رہی ہے اور اس سے کھیل رہی ہے۔ معاشرے میں یہ باتیں ‌ سمجھنا ذاتی اور پروفیشنل زندگی میں ‌ کامیابی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2