عمران خان کے لئے ضروری یو ٹرن


میں عمران کو ایک اثاثے کے طور پر ہمیشہ دیکھتا رہا ہوں اور میری یہ رائے اس وقت بھی تھی جب وہ اقتدار سے کوسوں دور تھے۔ عمران خان بعض معاملات میں دو سرے سیاستدانوں پر برتری لئے ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک کھلاڑی کی حیثیت سے وہ بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کے پاس یوتھ کا ایک بڑا لاٹ بھی موجود ہے۔

اگر ان چیزوں (خوبیوں ) کو وہ قدرے دانائی کے ساتھ استعمال کرنا شروع کردیں تو ان کی سیاسی کامیابی کے امکانات کئی گنا بڑھ سکتے ہیں، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ان خوبیوں کو استعمال میں لانے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟

عمران خان کے ارد گرد اس وقت تین طرح کے کارکن ہیں، ایک وہ جینوئن کارکن جوسمجھتے ہیں کہ نظام کی تبدیلی کے لئے ان کی اور عمران خان کی سوچ ایک جیسی ہے، دوسرے وہ کارکن ہیں جن کا خیال ہے کہ ان کی شکل عمران خان سے ملتی ہے اور تیسرے وہ جو ان کے ساتھ تصویر اتروا کر یا ان کی گاڑی کے ساتھ لٹک کر اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

حیرت اس بات پر ہے کہ مؤخرالذکر دونوں گروپ پہلے والے گروپ (جینوئن کارکن) پر سبقت لئے ہوئے ہیں (اس سے تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے ہاں وژن کے فقدان اور تنظیمی کمزوری عیاں ہے ) لیکن اس کے باوجود بھی عمران خان کی مقبولیت پر انگلی نہیں اُٹھائی جاسکتی، وہ اپنے سامنے یقینًا ایک بڑا مجمع لگانے اور انہیں جذباتی ابھار دینے کی فطری صلاحیت رکھتے ہیں ان کے کارکنوں کے ہاں اخلاص اور جذباتیت ہمیشہ قدرے بلند بلکہ بعض اوقات بے لگام محسوس کی گئی لیکن اس وقت جب کہ عمران خان اقتدار میں ہیں سوال یہ ہے کہ اس بیش قیمت لاٹ (یوتھ) کو ارفع مقاصد اور تخلیقی رجحان کی طرف موڑنے کی شعوری کوششوں کا آغاز کیا جائے ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی دو جماعتوں کے پاس ہمیشہ سے بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے حامل نوجوان کارکن پائے گئے ایک ایم کیو ایم اور دوسرا تحریک انصاف کے ہاں،

لئکن ہماری بہت ساری بد قسمتیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان اعلٰی اور بہترین ذہنوں کے حامل نوجوانوں سے حسب توقع کام نہیں لیا گیا بلکہ انہیں تخلیقیت کی بجائے جذباتیت کی طرف دھکیلا گیا لیکن تحریکانصاف کے حوالے سے میں اس فضا کو نہ عمران خان کا جرم سمجھتا ہوں نہ ان کے کارکنوں کا، کیونکہ عمران خان کی اچانک سیاسی مقبولیت اورکارکنوں کے ابتدائی سیاسی ایّام میں اس طرح کی قدرے غیر متوازن اورجذباتی فضا کی طرف مڑنا ایک فطری اور عمومی واقعہ ہے (اس حوالے سے بھٹو کے ابتدائی جیالے اور نوازشریف کے متوالے بھی کوئی شاندار ریکارڈ نہیں رکھتے ) لیکن یہاں بات ہورہی ہے

عمرانخان کے نوجوان اور با صلاحیت کارکنوں کی۔ اس جماعت یعنی پی ٹی آئی میں دوسری جماعتوں کی نسبت ہنرمند نوجوانوں (خصوصًا آئی ٹی کے ماہرین ) کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لئے تحریک انصاف کی لیڈر شپ سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے کی بجائے ( حکومت میں ہونے کے باوجود) ان نوجوانوں کی صلاحیت کی طرف توجہ مرکوز کرے تو یقینًا ثمر آور اور دور رس نتائج کی حامل سیاسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے جو یقینًا عمران۔ اور اس کی حکومت کو نہ صرف زوال سے بچا سکتی ہے بلکہ اس کی مقبولیت اور کامیابیوں کو مزید بڑھا بھی سکتی ہے لیکن سوال وہی ہے کہ طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔

تو کچھ تجاویز دینے میں حرج کیا ہے۔

پہلے مرحلے میں آئی ٹی ماہرین نوجوانوں پر مشتمل ایک مؤثر ٹیم بنائی جائے جو پورے ملک میں یوسی لیول تک اپنا نیٹورک بڑھائے۔
یہ ٹیم پہلے مرحلے میں ہیلتھ اور ایجوکیشن کو ٹارگٹ کرے اور پھر گلگت سے تفتان اور چترال سے کراچی تک تمام ڈیٹا اکٹھا کرے۔

ساتھ ساتھ دستیاب انفراسٹرکچر کی بہتری اور اپرچیونیٹیز (امکانات) کو رو بہ عمل لانے کے لئے تجاویز اور مشاورت کا ایک سلسلہ قائم کیا جائے، جس میں متعلقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور ماہر کارکنوں کو اہمیت دی جائے۔

اس پراجیکٹ کو عمران خان خود مانیٹر کریں اور وقت بوقت اس کی عملی کارکردگی۔ ہوائی باتوں کی بجائے فیکٹس اینڈ فگرز کے ساتھ میڈیا کے سامنے لاتے رہیں۔ پراجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں اسے دوسرے شعبوں مثلًا ایگریکلچر انڈسٹری حتٰی کہ کلچر پروموشن تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

اس کام کے خاطر خواہ اور مثبت نتائج آنا بہت جلد شروع ہوجائیں گے، جو عوام اور بحیثیت پارٹی تحریک انصاف دونوں کے لئے حد درجہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں،
اس سے عوام کو درپیش بنیادی مسائل کی نشان دہی اور اس کے حل کے لئے ایک جماعت اجتماعی طور پر آگے بڑھے گی۔

نوجوانوں میں سماجی خدمت کا جذبہ اجاگر ہوگا، منفی جذباتیت کی بجائے مثبت رویہ فروغ پائے گا۔
ملکی اور عوامی مسائل کے حل کے لئے نوجوانوں میں تحرک اور آگاہی آجائے گی۔
پاکستانی سیاست کا رخ پیسے کی بجائے خدمت کی طرف مڑ جائے گا اور سب سے بڑھ کر عمران خان کی پرفارمنس اور مقبولیت کو پر لگ جائیں گے۔

میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف اپنے لڑکپن کو الوداعی ہاتھ ہلا کر سنجیدگی اور تدبر کے ساتھ پیش قدمی کرے کیونکہ اس ملک کو عمران خان اور ان کے باصلاحیت نوجوانوں سے حد درجہ توقعات اور اُمیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن فی الوقت عمران خان اور اس کی حکومت کی کارکردگی ایسی ہے کہ وہ تیزی کے ساتھ ان توقعات اور امیدوں سے دور جبکہ مایوسی اور نفرت کے قریب ہوتی جا رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ عمران خان اپنے با صلاحیت کارکنوں پر اعتماد کرنے اور انہیں قریب لانے میں مکمل طور پر نا کام نظر آ رہے ہیں اگر وزیر اعظم عمران خان یو ٹرن کو ایک سیاسی ڈاکٹرائن کے طور پر پیش کرنے اور دانائی کی علامت بتانے پر بضد ہیں ہی تو اپنے اس فلسفے کو خوشامدی سیاستدانوں کے نرغے سے مخلص اور کار آمد کارکنوں کی سمت موڑ دیں یہ یو ٹرن اسے یقیناً ایک خیرہ کن کامرانی سے ہمکنار بھی کرے گی اور ایک خوفناک زوال سے بچا بھی لے گی۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).