میثاق جمہوریت میں کیا خرابی ہے؟


تری جانب سے دل میں وسوسے ہیں۔ ان دنوں ہم پاکستان میں نیا پاکستان (جدید ایڈیشن) کا تجربہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ کچھ بدخواہ بے پرکی اڑاتے ہیں کہ یہ تو سید پرویز مشرف کے متعارف کردہ بندوبست کا احیا ہے تاہم ایسے غیر سنجیدہ عناصر کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے ہردلعزیز وزیر اعظم نے مثال دینے کے لئے پرویز مشرف کے سنہری دور کا ذکر کیا ہوتا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، وزیر اعظم عمران خان ہمارے گل چیں نوبہار ایوب خان کے عہد زریں کا حوالہ دینا پسند کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، بقول حبیب جالب، لائسنسوں کا موسم تھا۔ اس عشرہ ترقی میں گندھارا تہذیب اپنے کمال کو پہنچی۔ وفاق پاکستان اس قدر مضبوط ہو گیا کہ ملک کے اکثریتی بازو نے اقلیتی حصے کو خدا حافظ کہہ دیا۔ پاکستان کے پہلے دس برس میں امریکی امداد چند سو ملین کے پایاب پانیوں میں لڑکھڑا رہی تھی۔ یکایک جھرجھری لے کر بیدار ہوئی اور اربوں ڈالر کی خبر لائی۔

ہماری تاریخ میں امریکی امداد کا گراف ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔ خدا کے ایک عظیم پیغمبر نے فرعون مصر کو اچھی فصلوں اور خشک سالی کے سات سالہ ادوار کا جو نمونہ سمجھایا تھا، پاکستان کے لئے امریکی امداد کم و بیش اسی تصویر پر پوری اتری۔ ایوب، ضیا اور مشرف کے ادوار خوشحالی کا پیغام لائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور، 1990 کا عشرہ زیاں اور گزشتہ دس برس خشک سالی کی وعید بن کر رہ گئے۔ ان دنوں کوہ ندا پر آوارہ بشارت کی تعبیر ابھی واضح نہیں۔ آئیے ، ملائیشیا چلتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم ابھی اس دیس کا دورہ کر کے واپس آئے ہیں۔ ملائیشیا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے جہاں کرشمہ ساز وزیر اعظم نے مہاتیر محمد کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ ظاہر کیا، وہاں ایک چشم کشا جملہ ملک کی داخلی سیاست کے بارے میں بھی عطا کیا۔ فرمایا کہ ’ہم این آر او کریں گے اور نہ میثاق جمہوریت‘۔ آج ہم نے سلیم احمد مرحوم کے دل میں اٹھنے والے وسوسوں سے بات شروع کی ہے، یہ خدشے اس معصوم تبصرے ہی سے پیدا ہوئے ہیں۔

قائد اعظم نے ہمیں پاکستان کی جو امانت سونپی وہ ہمارے ظرف سے زیادہ تھی۔ ہم نے پاکستان میں دو مرتبہ نیا پاکستان بنایا۔ 20 دسمبر 1971 کو بھٹو صاحب نے نیا پاکستان بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اور پھر جولائی 2018 میں عمران خان نے نئے پاکستان کی نوید دی۔ بھٹو صاحب کے ابتدائی تین مہینے ہماری اجتماعی نفسیات کا حیران کن اظہار تھے۔ دوٹوک فوجی شکست اور پاکستان کے دو لخت ہونے کو بھلا کر ہم اس جوش و جذبے سے نئے پاکستان میں داخل ہوئے جیسے نئی محبت کرنے والے گذشتہ تجربے کو بھلانے کی لاشعوری کوشش کرتے ہیں۔ ماضی کی تلخیوں کا اسیر نہیں ہونا چاہئیے لیکن ان کا بے لاگ تجزیہ کر کے کچھ سبق ضرور سیکھنا چاہئیے۔ ہم نے اس کی زحمت نہیں کی۔ ایک سادہ نسخہ ہمارے ہاتھ لگ گیا تھا کہ امیروں کی دولت چھین کر معیشت کے خدوخال سنوارے جائیں۔ یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں کہ یہ غیر پیداواری چھینا جھپٹی تو ایک کوٹھری کے دھان دوسرے کمرے میں منتقل کرنے کے مترادف ہے۔ ہماری معیشت ایسی لڑکھڑائی کہ سرمایہ دار کا اعتماد پھر کبھی بحال نہیں ہو سکا۔

بھٹو صاحب کے بیشتر وزرا ناتجربہ کار تھے۔ کوئی گورنر ہاؤس کے دروازے عوام پر کھول رہا تھا تو کوئی جیلوں کا جال بچھا رہا تھا۔ بھٹو صاحب کو اپنے شخصی کرشمے پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا۔ وہ جمہوری بندوبست میں حزب اختلاف کا کردار تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ شملہ مذاکرات سے لے کر دستور کی تدوین تک اپوزیشن نے بھٹو صاحب کا ساتھ دیا۔ بھٹو صاحب نے ایسے مثبت اشاروں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی۔ دو صوبائی حکومتیں توڑیں، بلوچستان میں فوجی کارروائی کی۔ حیدر آباد ٹریبونل قائم کیا، قائد حزب اختلاف عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو اور عطااللہ مینگل سمیت درجنوں رہنماؤں پر غداری کی فرد جرم لگا دی۔ عدالت میں بزنجو صاحب کا لب ولہجہ افہام و تفہیم کا رنگ لیے ہوئے تھا لیکن یحیی بختیار انہیں بات ہی نہیں کرنے دیتے تھے۔ ایک روز انہوں نے فرمایا ’شاید اٹارنی جنرل کو یاد نہیں رہا، میں گورنر بلوچستان کی حیثیت سے بھٹو صاحب کا نمائندہ رہ چکا ہوں‘۔ اس مکالمے میں بھٹو صاحب کے ساڑھے پانچ سالہ اقتدار کا المیہ بیان ہو گیا۔ بھٹو صاحب نے جمہوریت کے سفر میں اپنے فطری حلیفوں کو مخالفین میں بدل دیا۔ نتیجہ یہ کہ تاریک گوشوں میں موجود پراسرار سائے ہمارے پہلے جمہوری تجربے کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

تین مہینے قبل پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تو حزب اختلاف کی طرف سے حالیہ تاریخی پس منظر اور انتخابی عمل پر گہرے تحفظات کے باوجود عندیہ دیا گیا کہ نئی حکومت کو اپنا کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ تاہم وزیر اعظم سمیت حکومت کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا جس سے معلوم ہوتا ہو کہ 25 جولائی 2018 سے پہلے بھی ہماری سات دہائیوں پر محیط ایک سیاسی تاریخ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت معمولی اکثریت سے قائم ہوئی ہے۔ قانون سازی کا عمل ابھی شروع نہیں ہو سکا۔ متعدد معاملات پر حکومتی موقف میں بار بار تبدیلیوں سے ایک افراتفری کا منظر ہے۔ جمہوری بندوبست میں حکومت کا اصل اثاثہ اس کے چیتے اور عقاب نہیں بلکہ معاملات سلجھانے کی اہلیت رکھنے والے ارکان ہوتے ہیں۔ پاکستان ایک مشکل معاشی صورت حال سے دوچار ہے۔ خارجہ محاذ پر ملکی وقار مخدوش ہے۔ کاروباری حلقوں سے لے کر عام شہری تک اضطراب کے آثار ہیں۔ احتساب کی کھینچا تانی سے پیداواری معیشت کے خدوخال نمودار نہیں ہو سکتے۔ ایسے میں وزیر اعظم کا میثاق جمہوریت کے بارے میں غیر محتاط تبصرہ بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے۔

کیا ہمارے وزیر اعظم نے 14 مئی 2006 کو طے پانے والے 36 نکاتی میثاق جمہوریت کا متن پڑھ رکھا ہے؟ کیا وزیر اعظم کو احساس ہے کہ ہماری جمہوری تاریخ کی یہ اہم دستاویز خود ان کی حکومت کا اثاثہ ہے۔ وہ ایک پارلیمانی دستور کے تحت چیف ایگزیکٹو کے منصب پر فائز ہوئے ہیں اور میثاق جمہورت پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی کا اعلان ہے۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت طے پایا تو عمران خان سیاسی منظر پر ثانوی کردار کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس وقت کی فوجی آمریت کا میثاق جمہوریت کے بارے میں رد عمل قابل فہم تھا۔ موجودہ تناظر میں اگر عمران خان جمہوری سیاست کی حرکیات کے ساتھ مطابقت پیدا نہیں کرتے تو اس سے خود انہیں نقصان پہنچے گا۔ پاکستان میں جمہوریت اور سیاست دانوں کو مطعون کرنے والے کردار نامعلوم نہیں ہیں۔ عمران خان کو حزب اختلاف کی نفسیاتی کیفیت سے نکل کر سمجھنا چاہئیے کہ وہ نہ صرف ایک سیاست دان ہیں بلکہ اس ملک کے منتخب وزیر اعظم بھی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن میں ایک بار بھی جمہوری اقدار اور آئینی بندوبست سے اپنی وابستگی کا اظہار نہیں کیا لیکن حتمی تجزیے میں پاکستان کا دستور ہی ان کی حکومت کا جواز ہے۔ عمران خان کو واضح کرنا چاہیے کہ انہیں میثاق جمہوریت کے کس حصے سے اختلاف ہے؟ فیض صاحب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال میں تجویز دی تھی، ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیم زہد کر لے….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).