کیا انسان واقعی دل سے سوچتا ہے؟


سات مہینے کا بچہ‘ ماں باپ کی پہلی اولاد‘ دل کے مسلز شدید کمزور‘ ایسی بیماری جو دس برس کی عمر تک بھی نہیں جانے دے گی‘ ڈاکٹروں کے ہاتھ کھڑے ہیں‘ حل کیا ہو؟ کارٹر کے ماں باپ کو ڈاکٹروں کا فائنل جواب یہ ہے کہ اس کا دل بدلا جائے گا۔ اس بچے کا ٹرانسپلانٹ ہو گا اور کوئی صحت مند دل سینے کے اندر رکھا جائے گا۔

سات ماہ کے بچے کو جو دل لگ سکتا ہے وہ بھی ظاہری بات ہے اسی عمر کے آس پاس کسی بچے کا ہو گا۔ وہ بدنصیب بچہ کون ہے جس کی موت ہونی ہے اور جس کا دل کارٹر کو لگنا ہے‘ اب ڈاکٹر اور کارٹر کے ماں باپ‘ تینوں کو یہی انتظار ہے۔

جیری سولہ مہینے کا ہے۔ ماں اسے نہلا رہی ہے‘ وہ ٹب میں کھلونوں سے کھیل رہا ہے‘ ماما ماما کہتے ہوئے پانی کے چھینٹے اڑا رہا ہے۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے‘ ماں فون سننے جاتی ہے‘ بات تھوڑی لمبی ہو جاتی ہے‘ واپس آنے تک جیری باتھ ٹب میں ڈوب چکا ہے۔ اولاد کا غم اور معمولی سی لاپرواہی کا جان لیوا خمیازہ ایک طرف‘ لیکن جیری کے ماں باپ کو خود ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے تھوڑا بہت اندازہ ہوتا ہے کہ اگر دل کا یا جسم کے اور کسی عضو کا عطیہ دینا ہو تو مرنے کے بعد تھوڑا ہی وقت ہوتا ہے کہ انہیں کسی ضرورت مند کے جسم تک پہنچایا جا سکے۔

ہسپتال والوں سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ مرنے والا سولہ ماہ کا بچہ تھا‘ خود بہ خود سب ڈاکٹروں کے دماغ میں کارٹر کا نام آتا ہے کہ وہ اس دل کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ کارٹر کے ماں باپ ہسپتال سے کال آتے ہی گھر سے نکلتے ہیں‘ ہسپتال پہنچتے ہیں‘ آپریشن کی تیاری ہوتی ہے‘ جیری کا دل کارٹر کے سینے میں کامیابی سے منتقل ہو جاتا ہے۔

کارٹر آپریشن سے پہلے بہت زیادہ شرمیلا قسم کا بچہ تھا‘ ہر وقت ماں کی گود میں گھسے رہنا‘ کسی اور کے پاس نہ جانا‘ کوئی اجنبی زیادہ قریب آئے تو رونا دھونا مچا دینا اور وہ ساری حرکتیں کرنا اس کی عادت تھی جو کوئی بھی چڑچڑا بچہ مکمل طبیعت اور کامل فراخدلی کے ساتھ کرتا ہے۔

دل بدلے جانے اور پوری طرح صحت یاب ہونے کے بعد صورتحال کچھ عجیب سی ہو جاتی ہے۔ اتوار کا دن ہے۔ کارٹر کا باپ ایک خوش عقیدہ انسان ہے۔ ڈھائی تین سال کے بچے کی انگلی پکڑے وہ اسے چرچ لے کر جا رہا ہے۔ کارٹر چرچ میں داخل ہونے کے بعد ایک دم باپ سے ہاتھ چھڑاتا ہے اور بازو پھیلائے بھاگتا ہوا ایک اور آدمی کے پاس چلا جاتا ہے۔

اس کی گود میں چڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے پاپا پاپا کہتے ہوئے متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ”میرے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔ میں بہت زیادہ حیران تھا کہ آخر وہ اسے کیسے جانتا ہے؟ اس نے آخر کس وجہ سے اسے پاپا کہنے کا سوچا؟

وہ کبھی ایسی الٹی سیدھی حرکتیں نہیں کرتا تھا کہ راہ چلتے کسی کو ہاتھ بھی ہلا دے‘ کجا کسی کو پاپا کہتے ہوئے آواز لگانا۔ جب میں نے بعد میں اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ بس میرا دل کر رہا تھا‘‘۔ یہ کارٹر کے باپ کا بیان تھا اور وہ شخص جسے کارٹر نے پاپا کہا تھا اور جس کی طرف دوڑا تھا وہ جیری کا باپ تھا۔

جیری کی ڈاکٹر ماں کہتی ہے کہ اس واقعے کے بعد ہم لوگ کارٹر سے ملنے کے لیے زیادہ جانا شروع ہو گئے۔ ہمیں ایسا لگتا تھا جیسے اس کے اندر جیری کا دل نہیں وہ سارے کا سارا خود جیری ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بچہ جب بولتا تھا تو اس کے الفاظ بھی وہی تھے جو مرنے سے جیری بولا کرتا تھا‘ وہی تلفظ‘ وہیں اٹکنا جہاں اسے مشکل ہوتی تھی‘ سب کچھ ویسے کا ویسا تھا۔

ایک مرتبہ جب جیری کی ماں کارٹر کو پیار کرنے کے لیے آگے ہوئی تو کارٹر نے اپنی ناک اس کی ناک سے بالکل ویسے رگڑی جیسے اس کا بیٹا جیری ڈوب کے مرنے سے پہلے کیا کرتا تھا۔ اب کارٹر ویک اینڈز پہ اکثر جیری کے ماں باپ سے ملنے کے لیے جاتا ہے اور کبھی کبھار ان کے پاس رک بھی جاتا ہے۔ یہ دل کے ٹرانسپلانٹ کی ایک کہانی ہے۔

یہ موضوع ایسا حیران کن تھا کہ جب دوستوں سے اس بارے میں بات کی تو معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ فلمیں بھی اس موضوع پہ بنائی جا چکی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک چھوٹی سی ویڈیو کہیں پرانے کھاتوں میں پڑی ملی‘ اسے ڈیلیٹ کرنے کے لیے دیکھا تو یہ گھن چکر سامنے تھا۔

ویڈیو میں اس سے بھی انٹرسٹنگ ایک اور کیس بتایا گیا تھا۔ 1995 ء میں سنے گراہم نامی ایک آدمی بعمر 59 برس دل کی بیماری کا شکار ہوا۔ اس کا دل ناکارہ ہونے کے بعد واحد علاج یہی تھا کہ اسے بدل دیا جائے۔ اب جو دل گراہم کو لگایا گیا وہ اس نوجوان کا تھا جس نے تینتیس برس کی عمر میں خودکشی کر لی تھی۔

آپریشن کامیاب رہا۔ گراہم کی نئی زندگی تھی‘ موجیں مارتا تھا۔ ہنسی خوشی میں وہ خود کشی کرنے والے کی بیوی (بلکہ بیوہ) سے ملنے بھی چلا گیا‘ اس کا شکریہ ادا کیا‘ واپس آیا لیکن دل پھر سے وہیں رہ گیا۔ کچھ عرصہ معاملہ چلا اور پھر پہلے شوہر کا دل بذریعہ آپریشن لینے والا گراہم اس عورت کا دوسرا شوہر بن گیا۔ گراہم اب پینسٹھ برس کا تھا اور شیرل اڑتیسویں سال میں تھی۔

ٹرانسپلانٹ کے بارہ اور شادی کے چار سال بعد گراہم نے بھی خودکشی کر لی۔ عین اسی طرح کی جیسے شیرل کے پہلے شوہر نے کی تھی۔ آس پاس والے ہمارے آپ کے جیسے ہر نیک انسان کی پہلی رائے یہی تھی کہ اس میں شیرل کا پورا قصور ہے‘ ہو سکتا ہے وہ اپنے شوہر کو اتنا تنگ کرتی ہو کہ ایک کے بعد دوسرے نے بھی خود کشی کر لی۔ بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایسا کوئی چکر نہیں تھا۔ قصور اس دل کا تھا اور اس دل کے ساتھ گراہم کے سینے میں سما جانے والی سیلولر میموری کا تھا۔

یعنی آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ آپ دل سے بھی سوچتے ہیں اور وہ دل اگر کسی دوسرے انسان میں رکھ دیا جائے تو وہاں جا کر بھی وہ اسی طرح سوچتا رہتا ہے۔ اب ہارڈ کور سائنس اسے ایک دم ریجیکٹ کرتی ہے۔ اسے کوئی راستہ نہیں دکھائی دے رہا کہ وہ اس بات کو مانے کس طرح؟

ادھر ٹرانسپلانٹ کروانے والوں کے انٹرویو موجود ہیں‘ ان کی فیملیوں کی گواہیاں ہیں‘ بہت سے واقعات مکمل تفصیل کے ساتھ نوٹ کیے گئے ہیں‘ سائینٹیفک ٹرائل بھی اس معاملے پر ہو چکے‘ لیکن کیا ایک سیل یا انسان کا باقی جسم بھی یادداشت سنبھالے رکھنے میں کوئی کردار ادا کرتا ہے؟ یہ سوال اب تک لٹکا ہوا ہے۔

غور کرنے اور حیران ہونے کی بات یہ نہیں ہے کہ واقعی دل سے سوچنا اور دل کی بات مان لینا اور دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے چول مار بیٹھنا ثابت ہونے لگا ہے‘ نہ‘ حیران ہونے کی بات یہ ہے کہ سوال لٹکا ہوا ہے۔ سائنس فرعون بھی ہو سکتی ہے‘ سائنس ایکدم رد کر سکتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتی۔

سائنس کہہ دیتی ہے کہ یہ محض اتفاقات ہیں‘ ایسا کچھ نہیں ہو سکتا‘ عین ممکن ہے یہ متاثرہ لوگوں کی ڈرامے بازی ہو لیکن جو بھی ہو سائنس آپ کو روکتی نہیں ہے کہ آپ اپنے طور پہ ایک تجربہ کریں اور کوئی رائے قائم کر لیں۔ اگر وہ تجربہ کامیاب ہو جائے تو اس کی بنیاد پہ نئی تھیوری پیش کر دیں‘ نیا نظریہ پیش کر دیں‘ پرانے والے کو رد کر دیں‘ کوئی مائنڈ نہیں کرے گا‘ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ تم غلط ہو اور ہم ٹھیک تھے‘ ہمارے باپ دادا ٹھیک تھے‘ ہمارے سائنسدان زیادہ عقل والے تھے۔

اگر کوئی انسان کامل ثبوت لا کر یہ نظریہ مارکیٹ میں رکھ دے کہ بھائی دماغ کے علاوہ باقی پورا جسم بھی سوچنے والے سیل رکھتا ہے اور یادداشتیں سٹور کرتا ہے تو سائنسدان اسے مان لیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ علم کی انتہا کوئی نہیں ہے۔ علم کی اخیر بس یہی ہے کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ جو کچھ آپ جانتے ہیں وہ اس وقت تک کا جدید علم ہے جس وقت آپ نے اسے جانا تھا‘ اسے پڑھا تھا۔

اس کے بعد کیا ہوا؟ اس میں کتنا بدلاؤ آیا؟ یہ سب جاننے کے لیے صدیوں سے چڑھی عینکیں اتار کے رکھنا پڑتی ہیں۔ جو موڈ میں ہو وہ اتار کے رکھ دے۔ باقی ہم لوگ ایک نئی تحقیق یہ کر سکتے ہیں کہ روز قیامت انسان کے ہاتھوں اور پیروں کی گواہی کس خوبصورتی سے ثابت ہونے جا رہی ہے۔ سائنس کا ایک مزہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر سمت بقدر ہمت فکر کی دعوت دیتی ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments